8 دسمبر ، ازبکستان کا یومِ آئین ، قانون کی بالادستی کا روشن استعارہ

ازبکستان میں ہر سال 8 دسمبر آئین کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے، لیکن یہ دن محض ایک روایتی تقریب کا نام نہیں۔ یہ اس حقیقت کی یاددہانی ہے کہ موجودہ ازبکستان اب ایک ایسا ملک بن چکا ہے جہاں قانون کتابوں سے نکل کر عملی زندگی میں نظر آتا ہے۔ 1991 میں آزادی کے بعد ریاست نے آئین کو محض رسمی دستاویز نہیں بننے دیا بلکہ اسے ایک ایسا سماجی معاہدہ بنایا جس نے عام شہری کی حفاظت، انصاف کی فراہمی اور ریاستی طاقت کو ذمہ داری کے اصولوں سے باندھ دیا۔

اِن برسوں میں ازبکستان کا سب سے نمایاں کارنامہ یہی ہے کہ اس نے قانون کو ایک مضبوط ستون کے طور پر کھڑا کیا ہے۔ عام شہری سے لے کر اعلیٰ سرکاری منصب رکھنے والے افراد تک، سب کو قانون کے دائرے میں لانے کی جو روایت قائم کی گئی ہے، وہ اس خطّے میں کم ہی نظر آتی ہے۔ عدالتیں نسبتاً بروقت فیصلے کرتی ہیں، شفاف کارروائی کو یقینی بناتی ہیں، اور شہری حقوق کے تحفظ کو اولین ترجیح دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عام لوگ بھی یہ محسوس کرتے ہیں کہ ریاستی نظام ان کے ساتھ کھڑا ہے، نہ کہ ان کے سامنے۔

قانون کی بالادستی کا سب سے بڑا عملی ثبوت وہ مقدمات ہیں جن میں حکومت کے انتہائی طاقتور حلقوں سے وابستہ شخصیات کو بھی احتساب کا سامنا کرنا پڑا۔ ازبکستان میں یہ تصور اب مضبوط ہو چکا ہے کہ قانون سے بالاتر کوئی نہیں۔ سابق صدر اسلام کریموف کی صاحبزادی گلنارا کریمووا کا مقدمہ اس اصول کی ایک نمایاں مثال ہے۔ کئی برس گزر جانے کے باوجود وہ آج بھی سزایافتہ ہیں اور پابندِ سلاسل ہیں۔ اور یہ سب کچھ خود اس بات کی دلیل ہے کہ ازبکستان میں عدالتیں سیاسی اثر و رسوخ کے آگے نہیں جھکتیں۔

کوئی بھی معاشرہ اُس وقت مضبوط ہوتا ہے جب عام شہری یہ یقین کر لے کہ قانون اس کی حفاظت کرتا ہے اور عدالت اس کی آواز سنے گی۔ ازبکستان اس مقام کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ انتظامی اصلاحات، عدالتی شفافیت اور کرپشن کے خلاف کارروائیوں نے ملک میں اعتماد کی فضا پیدا کی ہے۔ عام شہری اب صرف تماشائی نہیں بلکہ ریاستی عمل میں ایک شریک فریق کے طور پر محسوس کرتا ہے۔

آئین کا دن اسی احساس کی تجدید ہے کہ ایک قانون پسند معاشرہ صرف ریاست کو نہیں بلکہ ہر شہری کو باعزت اور محفوظ بناتا ہے۔ ازبکستان نے اس اصول کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ اس پر عمل کرنے کی مضبوط روایت بھی قائم کر دی ہے۔ یہی وہ پیغام ہے جسے “تاشقند اردو” اس مضمون کے ذریعے اجاگر کرنا چاہتا ہے کہ ازبکستان کا آئین اور اس کا قانونی نظام محض ریاست کی طاقت نہیں، بلکہ ہر اس شہری کی ڈھال ہے جو اس سرزمین پر امن، انصاف اور وقار کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہے

Author

اپنا تبصرہ لکھیں