آپ نے دیکھا، نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں کیا ہوا؟ وہاں کی حکومت نے سوشل میڈیا پر پابندی عائد کی تو عوام بپھر گئے اور انہوں نے وزیر اعظم سمیت بہت سے وزرا ء کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا۔ پُر تشدد ہجوم نے وزیر اعظم کے پی شرما اولی اور صدر رام چندر پاؤڈل کی ذاتی رہائش گاہوں میں توڑ پھوڑ کی اور رہائش گاہوں کو آگ لگا دی۔ مشتعل افراد نے سابق وزرائے اعظم پشپا کمل دہال (پرچنڈا) اور شیر بہادر دیوبا کے گھروں سمیت وزیر توانائی دیپک کھڑکا کی رہائش گاہ کو بھی نقصان پہنچایا جبکہ پارلیمنٹ ہاؤس کو بھی نذر آتش کر دیا۔ عوام نے نیپالی وزیر خزانہ کی وہ درگت بنائی کہ ممکن ہے بہت سے ممالک کے وزرائے خزانہ اس سے عبرت پکڑیں اور اپنی وزارتوں سے الگ ہو جائیں۔ نیپال میں یہ سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ نیپالی حکومت کی جانب سے ملک بھر میں کرفیو کے نفاذ کے باوجود احتجاج جاری رہنے پر کئی وزرا نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے کر حکومت سے لا تعلقی کا اظہار کر دیا ہے۔
نیپال کے انقلاب پر بات آگے بڑھاتے ہیں، پہلے مختصر سا ذکر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا کہ عوام کو اب ان سہولتوں سے محروم کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔ ایکسیس ناؤ (Access Now) نیو یارک میں قائم ایک نان پرافٹ آرگنائزیشن ہے۔ اس کی ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً ہر پیمانے کے مطابق 2023ء انٹرنیٹ کی بندش کا بد ترین سال تھا۔ اس سال 39 ملکوں میں کم از کم 283 بار انٹرنیٹ میں خلل ڈالا گیا اور اس عمل نے تشدد، جنگی جرائم اور جمہوریت پر حملوں کو بڑھایا اور فعال کیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان حملوں نے لاکھوں لوگوں کے انسانی حقوق کو کچل دیا اور یہ کہ 116 بار انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کر کے بھارت لگاتار 6 سال سے دنیا میں انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کی گنتی میں سب سے آگے ہے۔ بھارتی حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پر پابندی کتنی شدید ہے اس کا اندازہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کے اس سخت رد عمل سے لگایا جا سکتا ہے جس میں مودی سرکار کی جانب سے بھارت میں خبر رساں ایجنسی رائٹرز سمیت 2355 اکاؤنٹس کو بلاک کرنے کے احکامات پر سخت برہمی کا اظہار کیا گیا۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والا بھارت سوشل میڈیا مواد کو ہٹانے کی سرکاری درخواستوں کے حوالے سے سرفہرست 5 ممالک میں شامل رہا ہے۔
نیپال میں انقلابی احتجاجی مظاہروں کو جنریشن زی کا حکومتی پالیسیوں پر سخت رد عمل قرار دیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ جنریشن زی کے احتجاجی مظاہرے ہیں۔ جنریشن زی 1996ء سے 2010ء کے دوران پیدا ہونے والے افراد کو کہا جاتا ہے۔ یہ نسل اب جوان ہو چکی ہے اور خود پر کسی غیر واجب پابندی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اگر جنریشن زی کا حکومتی اقدامات خصوصاً سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ سے متعلق فیصلوں پر یہ رد عمل ہے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس سے اگلی جنریشن یعنی جنریشن الفا حکومتی قدغنوں پر کیا رد عمل دکھا سکتی ہے۔ 2010ء سے 2024 ء تک پیدا ہونے والے دو ارب بچے الفا جنریشن کہلاتے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ یہ تاریخ کی سب سے بڑی نسل ہے، جس کا سب سے بڑا بچہ اس وقت 15 سال کا ہے۔ یہ پہلا بچہ اسی سال پیدا ہوا تھا جب آئی پیڈ منظر عام پر آیا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق الفا نسل جدید ترین ٹیکنالوجی میں گھرے ماحول میں پروان چڑھ رہی ہے اور اپنے سے پہلے کی کسی بھی جنریشن کی نسبت زیادہ وقت کمپیوٹر کی سکرینوں، سمارٹ فونوں اور ٹیبلٹس کے سامنے گزارتی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ آن لائن وقت گزارنے کی وجہ سے یہ نسل گہرے عالمی رابطوں کی حامل ہو گی جس کے نتیجے میں ان کی دنیا ایک الگ ہی دنیا ہو گی۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر پابندیوں کا اس نسل کی جانب سے کیا اور کتنا شدید رد عمل آ سکتا ہے۔
اب آتے ہیں دوبارہ نیپال کی طرف۔ نیپال میں جو کچھ ہوا، اسے اگر بنگلہ دیش میں گزشتہ برس آنے والے انقلاب سے بڑا انقلاب قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا، کیونکہ بنگلہ دیش میں تو صرف وزیر اعظم حسینہ واجد ہیلی کاپٹر پر ملک سے فرار ہوئی تھیں، نیپال میں تو پوری حکومت ہل کر رہ گئی ہے۔ انڈونیشیا میں فوج اور سویلین حکمرانوں کو ملنے والی مراعات کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی خبریں فروری 2025ء سے اب تک مسلسل آ رہی ہیں۔ احتجاجیوں نے ایسے کتبے تھام رکھے تھے جن پر لکھا تھا: Government means nothing without us، یعنی حکومت ہمارے (عوام)کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو قانون سازی اور فیصلہ سازی کرتے وقت حکمران بھول جاتے ہیں، یہ کہ ان کے پاس جو اختیارات ہیں وہ عوام کے تفویض کردہ ہیں اور یہ انہیں من مانیاں کرنے کے لیے نہیں دیے گئے۔
بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور اب نیپال میں ہونے والے شدید احتجاجوں سے پانچ باتیں واضح تر ہو چکی ہیں۔ پہلی یہ کہ عوام خود پر لگنے والی بے جا پابندیاں اور استبدادی فیصلے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دوسری یہ کہ عوام حکمرانوں کو بھی اپنے جیسی زندگی بسر کرتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ تیسری یہ کہ اعلیٰ سطح پر ملنے والی بے جا مراعات عوام کی نظر میں ہیں اور ان سے کوئی بات یا کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ چوتھی یہ کہ حکمران جو کچھ بھی کرتے ہیں عوام ان سارے معاملات کا جائزہ لے رہے ہوتے ہیں اور جانتے ہوتے ہیں کہ حکومتوں کو ان کے ساتھ کتنی ہمدردی ہے۔ پانچویں یہ کہ عوام سچ اور جھوٹ سے بھی پوری طرح آگاہ اور واقف ہوتے ہیں اور ناجائز اور بے جا قدغنوں پر ان کے اندر حکومت مخالف لاوا پکنا شروع ہو جاتا ہے جو بالآخر کسی روز پھٹ پڑتا ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ آج کے جدید مواصلات کے دور میں عوام کا شعور اتنا بلند ہو چکا ہے کہ وہ کھرے اور کھوٹے کو پہچاننے لگے ہیں۔ ان سے Bluff Game نہیں کی جا سکتی۔ انہیں اب بہلایا پھسلایا نہیں جا سکتا۔ اب یہ دنیا بھر کے حکمرانوں اور حکومتوں پر ہے کہ وہ عوام کے رویے میں پیدا ہونے والی اس نئی تبدیلی کے مطابق خود کو ڈھالتے ہیں یا پھر انقلابی مظاہروں کا انتظار کریں گے۔