بھارت کو آج بھی دنیا کے سامنے ایک کثیرالمذہب، سیکولر اور جمہوری ریاست کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، مگر زمینی حقائق اس دعوے کی صریح تردید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ جو ناروا سلوک روا رکھا جا رہا ہے، وہ کسی ایک حکومت یا ایک جماعت تک محدود نہیں رہا بلکہ ریاستی پالیسی، سماجی رویے اور سرکاری طرزِ عمل کا مستقل حصہ بنتا جا رہا ہے۔بہار کے وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار کی جانب سے ایک سرکاری تقریب میں مسلمان خاتون ڈاکٹر کا نقاب کھینچنے کا حالیہ واقعہ اسی افسوسناک سلسلے کی تازہ مثال ہے۔یہ واقعہ محض ایک خاتون کے ساتھ بدتمیزی یا غیر مہذب رویے کا نام نہیں بلکہ یہ اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو آج کے بھارت میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتی ہے۔ پٹنہ میں ڈاکٹروں کو تقرر نامے دینے کی تقریب دراصل خوشی، محنت کے اعتراف اور پیشہ ورانہ کامیابی کا لمحہ ہونا چاہیے تھا، مگر جیسے ہی ایک مسلمان خاتون ڈاکٹر، نصرت پروین، مکمل برقعے اور نقاب میں اسٹیج پر آئیں، یہ لمحہ تذلیل، تعصب اور طاقت کے غلط استعمال کی نذر ہو گیا۔نتیش کمار، جو ماضی میں خود کو سیکولر سیاست کا علمبردار قرار دیتے رہے ہیں، نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے نہ صرف یہ پوچھا کہ “یہ کیا ہے” بلکہ سرعام ایک خاتون کا نقاب کھینچ کر اس کے مذہبی عقیدے، ذاتی وقار اور انسانی احترام کو پامال کر دیا۔ یہ عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ آج بھارت میں مسئلہ صرف بی جے پی یا ہندوتوا تنظیمیں نہیں رہیں، بلکہ وہ سیاست دان بھی اسی روش پر چل پڑے ہیں جو کبھی مسلمانوں کے ووٹ سے اقتدار میں آتے رہے۔یہ سوال نہایت بنیادی ہے کہ کیا کسی مسلمان خاتون کا نقاب ریاست کے لیے خطرہ ہے؟ کیا ایک تعلیم یافتہ ڈاکٹر،جو اپنی قابلیت اور محنت کے بل بوتے پر سرکاری ملازمت حاصل کرتی ہے، محض اپنے مذہبی لباس کی وجہ سے مشکوک بن جاتی ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر یہ مان لینا چاہیے کہ بھارت اب آئینی ریاست نہیں بلکہ اکثریتی جبر کی مثال بنتا جا رہا ہے۔
یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کوئی نیا رجحان نہیں۔ بابری مسجد کی شہادت، گجرات کے فسادات، دہلی میں مسلم کش فسادات، حجاب پر پابندیاں، مدارس کو نشانہ بنانا، لنچنگ کے واقعات اور اب مسلم خواتین کے لباس کو سیاسی مسئلہ بنانا یہ سب ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب یہ سب کچھ کھلے عام، کیمروں کے سامنے اور ریاستی سرپرستی میں ہو رہا ہے۔یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسلم خواتین کو خاص طور پر نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم عورت ہندوتوا بیانیے کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے، کیونکہ وہ اپنی شناخت، حیا اور عقیدے کے ساتھ جدید تعلیم اور پیشہ ورانہ زندگی میں بھی آگے بڑھ رہی ہے۔ نقاب یا حجاب پر حملہ دراصل اسی شناخت کو توڑنے کی کوشش ہے۔
اسی پس منظر میں اگر تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو پاکستان کا قیام ایک نظریاتی ضرورت نہیں بلکہ مسلمانوں کے لیے ایک تاریخی نجات ثابت ہوتا ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے پاکستان کا مطالبہ کسی ضد یا جذبات میں نہیں کیا تھا بلکہ ہندو اکثریت کے تعصب، سیاسی چالاکیوں اور مستقبل کے خطرات کو بھانپتے ہوئے کیا تھا۔ آج بہار کا یہ واقعہ اس بات پر مہرِ تصدیق ثبت کرتا ہے کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ کا خدشہ سو فیصد درست تھا۔اگر آج برصغیر کے مسلمان ایک آزاد ریاست میں اپنے مذہبی لباس، عبادات اور شناخت کے ساتھ عزت سے زندگی گزار رہے ہیں تو یہ پاکستان کی بدولت ہے۔ پاکستان میں کوئی وزیرِ اعلیٰ کسی مسلمان خاتون کا دوپٹہ یا نقاب نہیں کھینچ سکتا، کیونکہ یہاں آئین اور معاشرہ دونوں مذہبی آزادی کی ضمانت دیتے ہیں۔ یہی پاکستان کا سب سے بڑا امتیاز اور سب سے بڑی نعمت ہے۔یہ کہنا بھی حقیقت کے خلاف نہیں کہ اگر پاکستان وجود میں نہ آتا تو آج برصغیر کے کروڑوں مسلمان اسی ذلت، خوف اور عدم تحفظ کا شکار ہوتے جس کا مشاہدہ آج بھارت میں ہو رہا ہے۔ آج بھارت کے مسلمان اگر اپنی مذہبی شناخت کے دفاع میں کھڑے ہیں تو درحقیقت وہ پاکستان کے نظریے کی سچائی کو خود ثابت کر رہے ہیں۔بہار کے واقعے پر بھارتی سوشل میڈیا اور چند سیاسی حلقوں کی تنقید خوش آئند ضرور ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ آوازیں ریاستی پالیسی کا رخ موڑ سکیں گی؟ یا پھر یہ سب وقتی شور ثابت ہو گا؟ بدقسمتی سے بھارت کی موجودہ فضا دیکھتے ہوئے امید کم اور خدشات زیادہ نظر آتے ہیں۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بہار میں نقاب کھینچنے کا واقعہ محض ایک خبر نہیں بلکہ ایک علامت ہے اس بھارت کی علامت جہاں مسلمان ہونا جرم بنتا جا رہا ہے، اور اس پاکستان کی اہمیت کی علامت بھی، جو مسلمانوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ، ایک نظریاتی قلعہ اور ایک عظیم نعمت ہے۔تاریخ نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان کا قیام کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت اور مسلمانوں کے لیے اللہ کی خاص نصرت تھی۔ آج بھارت میں ہونے والا ہر ایسا واقعہ ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ آزادی صرف سرحد کا نام نہیں، بلکہ عزت، شناخت اور ایمان کے ساتھ جینے کا حق ہے اور یہی حق پاکستان نے اپنے عوام کو دیا بھارت کو آج بھی دنیا کے سامنے ایک کثیرالمذہب، سیکولر اور جمہوری ریاست کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، مگر زمینی حقائق اس دعوے کی صریح تردید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ جو ناروا سلوک روا رکھا جا رہا ہے، وہ کسی ایک حکومت یا ایک جماعت تک محدود نہیں رہا بلکہ ریاستی پالیسی، سماجی رویے اور سرکاری طرزِ عمل کا مستقل حصہ بنتا جا رہا ہے۔بہار کے وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار کی جانب سے ایک سرکاری تقریب میں مسلمان خاتون ڈاکٹر کا نقاب کھینچنے کا حالیہ واقعہ اسی افسوسناک سلسلے کی تازہ مثال ہے۔یہ واقعہ محض ایک خاتون کے ساتھ بدتمیزی یا غیر مہذب رویے کا نام نہیں بلکہ یہ اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو آج کے بھارت میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتی ہے۔ پٹنہ میں ڈاکٹروں کو تقرر نامے دینے کی تقریب دراصل خوشی، محنت کے اعتراف اور پیشہ ورانہ کامیابی کا لمحہ ہونا چاہیے تھا، مگر جیسے ہی ایک مسلمان خاتون ڈاکٹر، نصرت پروین، مکمل برقعے اور نقاب میں اسٹیج پر آئیں، یہ لمحہ تذلیل، تعصب اور طاقت کے غلط استعمال کی نذر ہو گیا۔نتیش کمار، جو ماضی میں خود کو سیکولر سیاست کا علمبردار قرار دیتے رہے ہیں، نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے نہ صرف یہ پوچھا کہ “یہ کیا ہے” بلکہ سرعام ایک خاتون کا نقاب کھینچ کر اس کے مذہبی عقیدے، ذاتی وقار اور انسانی احترام کو پامال کر دیا۔ یہ عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ آج بھارت میں مسئلہ صرف بی جے پی یا ہندوتوا تنظیمیں نہیں رہیں، بلکہ وہ سیاست دان بھی اسی روش پر چل پڑے ہیں جو کبھی مسلمانوں کے ووٹ سے اقتدار میں آتے رہے۔یہ سوال نہایت بنیادی ہے کہ کیا کسی مسلمان خاتون کا نقاب ریاست کے لیے خطرہ ہے؟ کیا ایک تعلیم یافتہ ڈاکٹر،جو اپنی قابلیت اور محنت کے بل بوتے پر سرکاری ملازمت حاصل کرتی ہے، محض اپنے مذہبی لباس کی وجہ سے مشکوک بن جاتی ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر یہ مان لینا چاہیے کہ بھارت اب آئینی ریاست نہیں بلکہ اکثریتی جبر کی مثال بنتا جا رہا ہے۔
یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کوئی نیا رجحان نہیں۔ بابری مسجد کی شہادت، گجرات کے فسادات، دہلی میں مسلم کش فسادات، حجاب پر پابندیاں، مدارس کو نشانہ بنانا، لنچنگ کے واقعات اور اب مسلم خواتین کے لباس کو سیاسی مسئلہ بنانا یہ سب ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب یہ سب کچھ کھلے عام، کیمروں کے سامنے اور ریاستی سرپرستی میں ہو رہا ہے۔یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسلم خواتین کو خاص طور پر نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم عورت ہندوتوا بیانیے کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے، کیونکہ وہ اپنی شناخت، حیا اور عقیدے کے ساتھ جدید تعلیم اور پیشہ ورانہ زندگی میں بھی آگے بڑھ رہی ہے۔ نقاب یا حجاب پر حملہ دراصل اسی شناخت کو توڑنے کی کوشش ہے۔
اسی پس منظر میں اگر تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو پاکستان کا قیام ایک نظریاتی ضرورت نہیں بلکہ مسلمانوں کے لیے ایک تاریخی نجات ثابت ہوتا ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے پاکستان کا مطالبہ کسی ضد یا جذبات میں نہیں کیا تھا بلکہ ہندو اکثریت کے تعصب، سیاسی چالاکیوں اور مستقبل کے خطرات کو بھانپتے ہوئے کیا تھا۔ آج بہار کا یہ واقعہ اس بات پر مہرِ تصدیق ثبت کرتا ہے کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ کا خدشہ سو فیصد درست تھا۔اگر آج برصغیر کے مسلمان ایک آزاد ریاست میں اپنے مذہبی لباس، عبادات اور شناخت کے ساتھ عزت سے زندگی گزار رہے ہیں تو یہ پاکستان کی بدولت ہے۔ پاکستان میں کوئی وزیرِ اعلیٰ کسی مسلمان خاتون کا دوپٹہ یا نقاب نہیں کھینچ سکتا، کیونکہ یہاں آئین اور معاشرہ دونوں مذہبی آزادی کی ضمانت دیتے ہیں۔ یہی پاکستان کا سب سے بڑا امتیاز اور سب سے بڑی نعمت ہے۔یہ کہنا بھی حقیقت کے خلاف نہیں کہ اگر پاکستان وجود میں نہ آتا تو آج برصغیر کے کروڑوں مسلمان اسی ذلت، خوف اور عدم تحفظ کا شکار ہوتے جس کا مشاہدہ آج بھارت میں ہو رہا ہے۔ آج بھارت کے مسلمان اگر اپنی مذہبی شناخت کے دفاع میں کھڑے ہیں تو درحقیقت وہ پاکستان کے نظریے کی سچائی کو خود ثابت کر رہے ہیں۔بہار کے واقعے پر بھارتی سوشل میڈیا اور چند سیاسی حلقوں کی تنقید خوش آئند ضرور ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ آوازیں ریاستی پالیسی کا رخ موڑ سکیں گی؟ یا پھر یہ سب وقتی شور ثابت ہو گا؟ بدقسمتی سے بھارت کی موجودہ فضا دیکھتے ہوئے امید کم اور خدشات زیادہ نظر آتے ہیں۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بہار میں نقاب کھینچنے کا واقعہ محض ایک خبر نہیں بلکہ ایک علامت ہے اس بھارت کی علامت جہاں مسلمان ہونا جرم بنتا جا رہا ہے، اور اس پاکستان کی اہمیت کی علامت بھی، جو مسلمانوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ، ایک نظریاتی قلعہ اور ایک عظیم نعمت ہے۔تاریخ نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان کا قیام کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت اور مسلمانوں کے لیے اللہ کی خاص نصرت تھی۔ آج بھارت میں ہونے والا ہر ایسا واقعہ ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ آزادی صرف سرحد کا نام نہیں، بلکہ عزت، شناخت اور ایمان کے ساتھ جینے کا حق ہے اور یہی حق پاکستان نے اپنے عوام کو دیا