امریکی عدالت نے حکومت اور نائن الیون کے مبینہ ماسٹر مائنڈ کے درمیان اعترفِ جرم کا معاہدہ مسترد کر دیا

واشنگٹن کی ایک عدالت نے ‘نائن الیون’ حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ ‘خالد شیخ محمد’ اور دیگر دو ملزمان کے ساتھ امریکی حکومت کے اعترافِ جرم کے ممکنہ معاہدے کو روک دیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت ملزمان اپنی سزائے موت سے بچ سکتے تھے اور ان کے بدلے میں انھیں عمر قید کی سزا دی جاتی۔

گزشتہ برس گرمیوں میں تینوں ملزمان نے امریکی حکام سے ایک ڈیل پر آمادگی ظاہر کی تھی، جس کے تحت وہ 9/11 کے حملوں میں ملوث ہونے سمیت تمام الزامات کا اعتراف کرنے پر رضامند تھے۔ لیکن بعدازاں، امریکی حکومت نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ، اگر یہ پری ٹرائل درخواستیں منظور کی گئیں تو اس سے انصاف کے عمل کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

تین ججز پر مشتمل عدالتی بینچ نے دو ایک کی اکثریت سے یہ معاہدہ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ، انہیں اس حساس معاملے پر مزید غور کے لیے وقت درکار ہے۔ تاہم، اس فیصلے کو مقدمے کی نوعیت پر حتمی رائے نہ سمجھا جائے۔ فیصلے سے اختلاف کرنے والے جج رابرٹ ولکنز نے اس اقدام پر اعتراض بھی کیا۔

یاد رہے کہ، خالد شیخ محمد 2003 سے گوانتانامو بے میں قید ہیں۔ انہیں 2976 افراد کے قتل اور نائن الیون حملوں کی منصوبہ بندی جیسے سنگین جرائم کا مرکزی کردار سمجھا جاتا ہے۔

معاہدے کی شرائط کے مطابق، متاثرہ خاندانوں کو ملزمان سے براہِ راست سوالات پوچھنے کا موقع دیا جانا تھا، اور خالد شیخ محمد ایمانداری سے ان سوالات کے جواب دینے کے پابند ہوتے۔ لیکن متاثرین کے اہل خانہ اس پیش رفت پر منقسم تھے،بعض نے اسے انصاف کی جانب قدم قرار دیا تو کچھ نے اسے ایک تکلیف دہ باب کو بند کرنے کی کوشش سمجھا۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق، یہ معاہدہ پہلی بار پراسیکیوٹرز کی جانب سے متاثرین کے خاندانوں کو بھیجے گئے ایک خط میں سامنے آیا، جس میں کہا گیا تھا کہ، اگر سزائے موت کو ہٹا دیا جائے تو ملزمان تمام الزامات تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں