امریکہ کے جنگی عزائم، معیشت کا سہارا یا عالمی تباہی کی تجارت؟

امریکہ کی عالمی پالیسیوں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ واشنگٹن کی جنگی حکمت عملیاں صرف سکیورٹی یا جمہوریت کے تحفظ تک محدود نہیں بلکہ ان کے پس منظر میں گہرے معاشی مفادات کارفرما ہوتے ہیں، درحقیقت امریکہ کے اندر پیدا ہونے والی معاشی بدحالی اور صنعتی تنزلی کو روکنے کے لیے ایک خفیف مگر مضبوط منصوبہ بندی کے تحت بیرونی دنیا کو مسلسل جنگوں اور عدم استحکام میں الجھائے رکھا جاتا ہے تاکہ اپنی عسکری خدمات، اسلحہ، ٹیکنالوجی اور جنگی مشینری کی فروخت کو جاری رکھا جا سکے، یہی وہ اصل طاقت ہے جو امریکی معیشت کے بگڑتے پہیے کو حرکت میں رکھتی ہے، امریکہ کی تاریخ میں “military-industrial complex” کا تصور نیا نہیں، صدر آئزن ہاور نے ساٹھ کی دہائی میں قوم کو خبردار کیا تھا کہ ایک ایسا طاقتور نیٹ ورک ابھر رہا ہے جو فوج، صنعت اور سیاست کے درمیان ایک خطرناک اتحاد بنائے گا، آج وہ پیش گوئی ایک حقیقت کے طور پر سامنے آچکی ہے، امریکی بجٹ کا سب سے بڑا حصہ دفاعی اخراجات پر صرف ہوتا ہے، دفاعی کمپنیاں جیسے Lockheed Martin، Raytheon، Boeing اور Northrop Grumman امریکی حکومت کے فیصلوں پر بالواسطہ اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، ہر جنگ یا تنازع ان کمپنیوں کے لیے نئے آرڈرز، نئے معاہدے اور اربوں ڈالر کی کمائی کے دروازے کھول دیتا ہے،

سوڈان کی موجودہ صورتحال کو دیکھیں تو واضح ہوتا ہے کہ وہاں کی خانہ جنگی میں عالمی قوتوں کے مختلف مفادات گڈمڈ ہوچکے ہیں، امریکہ سفارتی سطح پر امن کا علمبردار بنتا ہے مگر عملی طور پر اس کے دفاعی ادارے اور مشاورتی نیٹ ورکس مختلف علاقائی گروہوں پر اثرانداز رہتے ہیں، مزید دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات، جو سوڈان میں RSF (Rapid Support Forces) کو مالی و عسکری مدد فراہم کر رہا ہے، وہ زیادہ تر اسلحہ اور جنگی ساز و سامان امریکی ساختہ خریدتا ہے، یعنی وہی ہتھیار جو امریکی کمپنیوں سے خریدے جاتے ہیں، بعد ازاں اسی خطے میں متحارب گروہوں کو پہنچ جاتے ہیں، اس تمام صورتحال کے باوجود امریکہ کسی بھی فیصلہ کن ایکشن یا پابندی سے گریز کرتا ہے، جس سے صاف ظاہر ہے کہ واشنگٹن اپنی معاشی اور دفاعی مفادات کے خلاف کوئی قدم اٹھانے پر آمادہ نہیں، کیونکہ براہِ راست یا بالواسطہ طور پر اسلحہ کی یہ تجارت خود امریکی کمپنیوں کو اربوں ڈالر کے منافع دے رہی ہے، افغانستان کی مثال بھی اسی تسلسل کا حصہ ہے، بیس سالہ جنگ جس نے لاکھوں جانیں نگل لیں، آخرکار طالبان کی واپسی پر ختم ہوئی، مگر اس طویل جنگ نے امریکی دفاعی کمپنیوں کو بے پناہ منافع دیا، اربوں ڈالر کے اسلحہ، گاڑیاں، ڈرونز، راڈار سسٹم اور ایندھن بیچا گیا، جب جنگ ختم ہوئی تو وہی اسلحہ افغان زمین پر رہ گیا، مگر امریکی معیشت نے کچھ عرصے کے لیے سانس لے لیا،

یہی ماڈل امریکہ دیگر خطوں میں دہراتا ہے، جنگوں کو طویل کرتا ہے، مذاکرات کو مؤخر کرتا ہے تاکہ عسکری کاروبار چلتا رہے، پاکستان، بھارت اور افغانستان کا خطہ امریکہ کی نئی سرد جنگی حکمت عملی میں نہایت اہمیت رکھتا ہے، بھارت کو عسکری پارٹنر بنا کر امریکہ دراصل چین کو گھیرنے کی کوشش کر رہا ہے، اسی مقصد کے لیے بھارت کو جدید جنگی ٹیکنالوجی، میزائل سسٹم، اور سیٹلائٹ تعاون فراہم کیا جا رہا ہے، جبکہ پاکستان کو ایک ایسے خطے میں رکھا گیا ہے جہاں اسے مسلسل دفاعی دباؤ اور اندرونی غیر یقینی صورتحال کا سامنا رہے، افغانستان کی غیر مستحکم حکومت اور خطے میں دہشت گردی کے خدشات دراصل اسی جنگی ماڈل کے ایندھن ہیں جن سے امریکہ اپنی موجودگی کا جواز پیدا کرتا ہے، امریکہ کے معاشی اشاریے بتاتے ہیں کہ اندرونی طور پر اس کی معیشت قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے، غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے، مگر دفاعی صنعت میں اضافہ مسلسل جاری ہے، واشنگٹن ہر سال سینکڑوں ارب ڈالر کے نئے دفاعی منصوبے شروع کرتا ہے، یہی وہ معاشی حکمت عملی ہے جسے ’’war-driven economy‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی معیشت جو جنگ کے ذریعے زندہ رکھی جائے، اس ماڈل میں جنگیں ختم نہیں ہوتیں بلکہ ان کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں، کبھی انسانی حقوق کے نام پر، کبھی دہشت گردی کے خلاف، کبھی جمہوریت کے تحفظ کے بہانے، یہی طرزِ عمل دنیا بھر میں تباہی، مہنگائی، ہجرت اور سیاسی انتشار کو جنم دیتا ہے،
امریکہ کے اتحادی ممالک بھی اس پالیسی کے اثر سے محفوظ نہیں رہتے، نیٹو کے بعض ممالک خود اعتراف کرتے ہیں کہ واشنگٹن اپنے عسکری معاہدوں کے ذریعے ان پر مالی و دفاعی دباؤ بڑھاتا ہے تاکہ اسلحہ کی خریداری میں اضافہ ہو، عالمی تنازعات کا سب سے بڑا نقصان ترقی پذیر ممالک کو ہوتا ہے جو اپنی معیشتوں کا بڑا حصہ دفاع پر خرچ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جبکہ عوام غربت، بھوک اور عدم تحفظ کا شکار رہتے ہیں، تحقیقی شواہد یہ بتاتے ہیں کہ امریکہ کی دفاعی پالیسی میں دو بڑے ستون ہیں، ایک عسکری طاقت کا تسلط اور دوسرا معاشی تسلسل، یہ دونوں ستون ایک دوسرے کے بغیر کمزور ہیں، امریکہ کے اندر جب معاشی بحران یا صنعتی زوال کے آثار نمایاں ہوتے ہیں تو بیرونی محاذوں پر کشیدگی بڑھنے لگتی ہے، کبھی ایران کے ساتھ، کبھی چین، کبھی روس یا مشرقِ وسطیٰ میں، مقصد یہ ہوتا ہے کہ امریکی عوام کی توجہ اندرونی بحران سے ہٹا کر بیرونی دشمن کی طرف مبذول کرائی جائے، ساتھ ہی دفاعی کمپنیوں کے لیے نیا سرمایہ اور روزگار پیدا کیا جائے، سوڈان، یوکرین، فلسطین، تائیوان، بحیرہ جنوبی چین، افغانستان اور مشرقِ وسطیٰ، ہر خطہ دراصل امریکی مفادات کی chess board ہے، جہاں واشنگٹن اپنے معاشی مہرے ترتیب دیتا ہے، بظاہر انسانی حقوق، جمہوریت اور امن کی بات کی جاتی ہے مگر عملی طور پر جنگی معاہدے، ہتھیاروں کی فراہمی اور دفاعی امداد کے سودے ہوتے ہیں، یہی وہ تضاد ہے جس نے امریکی پالیسی کو عالمی سطح پر مشکوک بنا دیا ہے، وقت آ گیا ہے کہ دنیا امریکہ کے اس ’’اقتصادی جنگی نظام‘‘ کو سمجھ کر اپنے فیصلے خود کرے، ترقی پذیر ممالک کو اپنی سلامتی کو امریکی اسلحہ کے بجائے اقتصادی استحکام، تعلیمی ترقی اور علاقائی تعاون پر استوار کرنا ہوگا، کیونکہ جنگیں کبھی بھی کسی قوم کو طاقتور نہیں بناتیں بلکہ اسے قرضوں، بربادی اور غیر ملکی انحصار میں جکڑ دیتی ہیں، امریکہ کے لیے بھی اب یہی لمحہ ہے کہ وہ اپنی معیشت کو جنگوں کے بجائے امن، پیداوار اور انسانی ترقی کے ذریعے مضبوط کرے، کیونکہ جو قومیں جنگ سے معیشت بناتی ہیں، وہ آخرکار اپنے ہی ہتھیاروں سے تباہ ہو جاتی ہیں

Author

اپنا تبصرہ لکھیں