فلسطین کی رکنیت اور ‘امریکا فرسٹ’ پالیسی، امریکا کا یونیسکو سے نکلنے کا اعلان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ، امریکا اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے یونیسکو (UNESCO) سے دوبارہ علیحدگی اختیار کر رہا ہے، اور یہ فیصلہ دسمبر 2026 سے نافذ العمل ہوگا۔

اس فیصلے کی بنیادی وجہ فلسطین کو یونیسکو میں بطور رکن شامل کیے جانے اور مبینہ ’اسرائیل مخالف‘ رجحانات کو قرار دیا گیا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان، ٹیمی بروس کے مطابق، یونیسکو کی موجودہ پالیسی امریکا کے قومی مفاد سے متصادم ہے اور ادارے کا ایجنڈا ‘تقسیم پیدا کرنے والا’ ہے۔ انہوں نے یونیسکو کے اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف (SDGs) سے وابستگی کو ایک ’عالمی نظریاتی ایجنڈا‘ قرار دیا، جو امریکا کی خود مختاری کے منافی ہے۔

یاد رہے کہ، فلسطین 2011 سے یونیسکو کا رکن ہے، تاہم امریکا اسے خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتا۔ بروس نے واضح کیا کہ، فلسطین کی رکنیت امریکا کی پالیسی کے خلاف ہے اور اس کی وجہ سے یونیسکو میں اسرائیل کے خلاف بیانیہ فروغ پایا۔
یہ دوسرا موقع ہے جب ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کو یونیسکو سے نکالنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے قبل 2018 میں بھی ٹرمپ انتظامیہ نے اسی بنیاد پر یونیسکو سے علیحدگی اختیار کی تھی۔ تاہم 2023 میں صدر جو بائیڈن نے امریکا کی یونیسکو میں واپسی کا فیصلہ کیا تھا۔

ٹرمپ نے اپنے دوسرے دور صدارت میں بین الاقوامی اداروں سے امریکا کی وابستگی کو محدود کرنے کی پالیسی اپنائی ہے۔ فروری میں انہوں نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے لیے امریکی فنڈنگ بند کرتے ہوئے یونیسکو کی رکنیت کا ازسرنو جائزہ لینے کا حکم دیا تھا۔

وائٹ ہاؤس کی ترجمان، انا کیلی نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ،صدر ٹرمپ نے یونیسکو سے علیحدگی کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ یہ ادارہ بیداری (woke) اور تقسیم پیدا کرنے والے سماجی و ثقافتی مقاصد کی حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ، صدر ہمیشہ امریکا کو اولین ترجیح دیں گے۔

ادھر اسرائیلی وزیر خارجہ، گدعون سعار نے امریکا کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے اسرائیل کے ساتھ انصاف اور منصفانہ سلوک کی طرف اہم قدم قرار دیا۔ انہوں نے یونیسکو سمیت تمام اقوام متحدہ کے اداروں میں ‘سیاسی تعصب’ ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل، آڈری آزولے نے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا لیکن کہا کہ، امریکا کی شمولیت نہ ہونے کے باوجود یونیسکو امریکی نجی شعبے، جامعات اور غیر سرکاری اداروں کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔ ان کے مطابق، امریکاکی شراکت ادارے کے کل بجٹ کا صرف آٹھ فیصد ہے، اور اسٹاف میں کمی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

واضح رہے کہ، امریکا عالمی سطح پر اسرائیل کا سب سے بڑا سفارتی حمایتی رہا ہے، اور اقوام متحدہ سمیت متعدد عالمی اداروں میں اسرائیل کے خلاف تنقید کو روکنے کی کوشش کرتا آیا ہے۔ تاہم غزہ پر اسرائیل کی حالیہ جنگ، جس میں اکتوبر 2023 سے اب تک 59 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں، نے امریکا پر بھی تنقید میں اضافہ کیا ہے۔

انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرنے پر ٹرمپ انتظامیہ نے بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے ججوں اور اقوام متحدہ کے فلسطینی علاقوں کے لیے خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیز پر بھی پابندیاں عائد کی ہیں۔

یونیسکو سے نکلنے کے اس تازہ ترین اعلان کو ٹرمپ کی ‘امریکا فرسٹ’ پالیسی کا تسلسل قرار دیا جا رہا ہے، جو عالمی اداروں میں امریکی کردار اور شمولیت کو محدود کرنے کی کوشش ہے۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں