ایک سوال ہر مرد سے

صبح کے وقت جب سورج کی پہلی کرنیں زمین کو چھوتی ہیں، تو دنیا پر ایک نئی شروعات کا تاثر ہوتا ہے، لیکن ایک عورت کی صبح اس “نئی شروعات” سے کہیں پہلے شروع ہو چکی ہوتی ہے۔ اس کی آنکھیں شاید نیند سے بوجھل ہوں، جسم تھکن سے چُور ہو، مگر اس کے قدم کچن کی طرف بڑھ چکے ہوتے ہیں۔ وہ ناشتہ تیار کرتی ہے، شوہر اور بچوں کے کپڑے نکالتی ہے، استری کرتی ہے، بچوں کے بستے تیار کرتی ہے، ان کے جوتے چمکاتی ہے۔ اگر بچے بیمار ہوں تو وہ رات بھر جاگتی ہے، شوہر کی طبیعت خراب ہو تو تیمار داری کرتی ہے اور اگر ساس سسر بوڑھے ہوں تو ان کی خدمت بھی اسی کے ذمے ہوتی ہے۔ مہمان آجائیں تو چہرے پر مسکراہٹ کے ساتھ خدمت میں مصروف اور نند کے نخرے ہوں تو خاموشی سے برداشت کرنے والی۔

یہ سب کچھ روز کا معمول ہوتا ہے، نہ کسی نے سراہا، نہ کسی نے شکریہ ادا کیا۔ یہ سب “فرض” سمجھ لیا جاتا ہے۔

عورت ماں بھی ہوتی ہے، بہو بھی، بیوی بھی اور بسا اوقات ایک نوکرانی جیسا کردار بھی ادا کرتی ہے۔ مگر ان تمام کرداروں کے باوجود اس کی عزت، اس کی اہمیت اور اس کی قربانی کو وہ مقام نہیں ملتا، جس کی وہ حق دار ہے۔ ایک مرد جب دفتر سے تھکا ہارا آتا ہے تو اسے آرام چاہیے، سکون چاہیے، خدمت چاہیے، لیکن کیا وہ کبھی سوچتا ہے کہ جس عورت نے دن بھر گھر سنبھالا، اسے بھی تھکن ہوتی ہے؟ اس نے بھی شاید رات بھر جاگ کر بیمار بچے کو سنبھالا ہو یا صبح سے مسلسل کھڑے ہو کر کام کیا ہو۔ شوہر کو سالن میں نمک کی کمی تو فوراً محسوس ہو جاتی ہے، مگر بیوی کے جلتے ہاتھ، سوجی آنکھیں اور ٹوٹتی ہڈیاں اس کی نظروں سے اوجھل رہتی ہیں۔ اگر بیوی کبھی شکایت کرے تو اسے “منہ پھٹ” کہہ کر خاموش کرا دیا جاتا ہے۔ اگر وہ سنور کر آئے تو شک کے دائرے میں اور اگر سادہ رہے تو لاپرواہ قرار دیا جاتا ہے۔

سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ شوہر اکثر اپنی بیوی کو وہ عزت نہیں دیتا جس کی وہ مستحق ہے۔ ایک عورت جو دن رات اس کی خدمت میں مصروف ہے، اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی ہے، اس کے بچوں کو پالتی ہے، اس کے ماں باپ کی خدمت کرتی ہے، اسے معمولی سی باتوں پر طعنے سننے پڑتے ہیں۔ ساس کو اس میں ہر وقت خامی نظر آتی ہے، نند کو شکایت اور شوہر کو بے اعتنائی۔ شوہر اکثر بیوی کا ساتھ دینے کے بجائے دوسروں کے الفاظ کا شکار بن جاتا ہے۔ وہ بیوی جو شوہر کے لیے دنیا سے لڑنے کا حوصلہ رکھتی ہے، شوہر کے طعنوں اور لاپرواہی سے خود ٹوٹ جاتی ہے۔

عورت کوئی روبوٹ نہیں، وہ احساس رکھتی ہے، دل رکھتی ہے، جذبات رکھتی ہے۔ وہ محبت چاہتی ہے، عزت چاہتی ہے اور چاہتی ہے کہ اس کی خدمات کو سراہا جائے، اس کی محنت کو تسلیم کیا جائے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بیوی کو اکثر “مفت کی نوکرانی” سمجھا جاتا ہے۔ اس سے کام لیا جاتا ہے، مگر اسے عزت نہیں دی جاتی۔ شوہر یہ سمجھتا ہے کہ صرف کما کر لانا اس کی ذمہ داری ہے، باقی سب بیوی پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ مگر کیا ایک گھر صرف پیسے سے چلتا ہے؟ گھر وہ جگہ ہے، جہاں محبت، سکون، احترام اور شراکت ہوتی ہے۔ جہاں بیوی کو ملکہ سمجھا جائے، نہ کہ نوکرانی۔

ایک اور تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے مرد بیوی کی تعریف کرنا اپنی مردانگی کے خلاف سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بیوی کی تعریف کی تو “سر چڑھ جائے گی، حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ بیوی کی دل سے کی گئی تعریف اس کے اندر نئی زندگی بھر دیتی ہے۔ وہ زیادہ محبت سے خدمت کرے گی، زیادہ خلوص سے گھر سنوارے گی۔ بیوی کو اگر صرف طعنے ملیں گے تو وہ دل سے کبھی خوش نہیں رہ سکے گی۔ دل میں محبت، زبان پر نرم الفاظ اور رویے میں عزت، یہی وہ چیزیں ہیں جو ایک عورت کو خوش رکھتی ہیں اور جب عورت خوش ہو تو پورا گھر خوش ہوتا ہے۔

ایک عورت کو جنت جیسا گھر بنانے میں کوئی اعتراض نہیں، مگر شرط صرف اتنی ہے کہ اسے اس جنت کا مقام بھی دیا جائے۔ جب بیوی کو شوہر کی طرف سے عزت، اعتماد، محبت اور مدد ملے گی، تبھی وہ دل سے خدمت کرے گی۔ ورنہ وہ ایک خاموش مشین بن جائے گی، جو سب کچھ کرے گی، مگر خوش نہیں ہوگی۔ گھر میں سکون، بچوں کی تربیت، شوہر کا سکون، سب کچھ عورت کے کندھوں پر ہوتا ہے۔ اگر اسے نظر انداز کیا جائے گا، اس کی قربانیوں کو تسلیم نہ کیا جائے گا، تو یہ ناانصافی صرف اس کے ساتھ نہیں، بلکہ پورے گھر کے ساتھ ہوگی۔

اصل مرد وہ ہے جو بیوی کو عزت دے، اس کے جذبات کو سمجھے، اس کی رائے کو اہمیت دے اور اسے احساس دلائے کہ وہ اکیلی نہیں ہے۔ مرد کو چاہیے کہ بیوی کے کاموں میں ہاتھ بٹائے، بچوں کی ذمہ داری بانٹے اور بیوی کی تھکن کو سمجھے۔ یہ کام مرد کی عزت کو کم نہیں کرتے، بلکہ بڑھاتے ہیں۔ جو مرد اپنی بیوی کے دکھ درد کو سمجھے، وہی اصل شوہر کہلانے کا حق دار ہے۔ مرد کو بادشاہ بننے کا شوق ہے تو یاد رکھیں! بادشاہ وہی ہوتا ہے جو اپنی ملکہ کو عزت دے۔

آخر میں بس ایک سوال ہر مرد سے…

اے مرد! کیا تم واقعی اپنی بیوی کو عزت دیتے ہو؟

یا تم بھی اُسی ہجوم کا حصہ ہو جو عورت کی قربانیوں کو “فرض” سمجھ کر نظر انداز کر دیتا ہے؟

Author

اپنا تبصرہ لکھیں