احمد عدنان طارق کو دوران سفر ایک خاتون کی فون کال موصول ہوئی۔ فون اٹھاتے ہی خاتون نے ‘ماں’ کے عنوان سے کہانی لکھنے پر ان کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔ دراصل، اس خاتون کی ایک ہی اولاد کو اللہ نے چند روز قبل اپنے ہاں بلالیا تھا، جس کے بعد وہ کافی پریشانی اور تذبذب کے عالم میں اللہ سے شکوہ کناں تھی کہ ‘ایک ہی بچے کو ہم سے ہی کیوں چھین لیا گیا؟’
‘ماں’ کے عنوان سے بچوں کے لیے لکھی عدنان طارق کی اس کہانی نے ان کی ڈھارس باندھی اور انہیں اللہ کے فیصلے میں پنہاں مصلحت پر مطمئن کیا۔احمد عدنان طارق فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ایک پولیس آفیسر ہیں ، جنہوں نے 1985 میں محکمہ پولیس میں شمولیت اختیار کی اور 2023 میں بطور ڈی ایس پی ریٹائرہوئے۔
انہوں نے تاشقند اردوسے بات کرتے ہوئے بتایا کہ’ وہ کہانی ایک ایسی ماں کی ہےجو اپنے بچے کو موت سے بچانے کے لیے مقابلہ کر تی ہیں۔ ماں کا اصرار ہوتا ہےکہ اس کے بچے کو نہ مارا جائے۔تاہم،موت بچے کا مستقل دکھاتی ہے، جس کے بعد ماں کو سکون میسر آجاتا ہے۔ماں کہتی ہیں کہ ‘اگر یہی بچے کا مستقبل ہے تو آپ اسے لے جاسکتے ہیں۔’
احمد عدنان طارق اس واقعے کو اپنی ادبی زندگی کا سب سے بڑا انعام سمجھتے ہیں۔ وہ روزانہ آٹھ سے دس گھنٹے بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے میں صرف کردیتے ہیں۔ ماں کی کہانی نے جہاں کئی ماؤں کو اللہ کے فیصلوں پر راضی ہونے میں مدد دی وہیں ماں کی یاد ہی تھی جس نے احمد عدنان طارق کو بچوں کے ادب سے جوڑ دیا۔
وہ کہتے ہیں کہ’فیصل آباد سے پچاس کلومیٹر دور کسی دور دراز گاؤں میں میری ماں ہیڈ ماسٹر تھیں۔ ابھی موبائل کا زمانہ نہیں آیا تھا جبکہ ٹی وی پورے شہر میں ہمارے علاوہ صرف دو گھروں میں تھا۔اس وقت جب میری شعور کی آنکھیں کھل رہی تھیں ، بچوں کا ادب تیزی سے پنپ رہا تھا۔ایسا دور چلا کہ بچوں کا ہم عصر ادب کنٹینرز میں لاد کر یہاں آتا اور ہمارے انگریزی کے اساتذہ بڑے پیمانے پر اس کا ترجمہ کرتے ۔’
‘ ترجمہ شدہ ادب نے طبع آزاد لکھاریوں میں بھی تحریک پیدا کی اور وہ بھی اچھا لکھنے لگے۔جبار توقیر کا مشہور زمانہ ناول ‘میرا نام منگو ہے’ اسی زمانے میں تخلیق ہوا، جس کو یونیسکو کی جانب سے بھی سراہا گیا۔’
احمد عدنان طارق کی عمر ابھی پندرہ سال تھی کہ ان کی والدہ کا انتقال ہوا۔اس واقعے نے انہیں کئی اہم چیزوں سے لاتعلق کیا۔2010 وہ سال تھا جب انہوں نے بچوں کے لیے باقاعدہ طور پر لکھنا شروع کیا۔
احمد عدنان نے بتایا کہ ‘ میں اس وقت ایک تھانے میں ایس ایچ او کی حیثیت سے تعینات تھا، جہاں ایک پولیس مقابلے میں میری ٹانگ گولی لگنے کی وجہ سے مفلوج ہوئی۔تقریبا ڈیڑھ سال تک میں اسی کیفیت میں رہا۔ اس تکلیف میں اللہ کے بعد ماں کی یاد آتی رہی۔اس دردنے جہاں بچپن میں بچھڑی ماں کو میرے سامنے لا کھڑا کیا وہیں اس دور میں چھا جانے والے بچوں کے ادب کی طرف بھی ذہن پھر سے مائل ہوگیا۔’
عدنان طارق نے اس کے بعد گاڑی لے کر اپنے بچپن کی ساری کتب کو شہر شہر جا کر مختلف لائبریریوں سے جمع کرنا شروع کیا۔ اس عمل نے مفلوجی کے احساس کو کافی حد تک دبا کر رکھا۔وہ بتاتے ہیں کہ’اس کوشش کے نتیجے میں 1916 سے لے کر اس وقت تک بچوں کی مشہور کتب جمع کیں اور اس پر مشتمل ایک ذاتی لائبریری قائم کی۔اس کےبعد بچوں کے لیے لکھنا شروع کیا اور تھوڑے ہی عرصے میں کامیاب ہوا۔ 2013 میں میری پہلی کتاب “تزئین اور تتلیاں” چھپی اور اس وقت میں 50 سے زائد کتب کا مصنف ہوں۔’
1970 کی دہائی میں فیروز سنز، غلام علی اینڈ سنز ، مکتبہ عالیہ، سنگ میل اور مقبول اکیڈمی سمیت کئی اداروں نے کتب کی چھپائی کاکام شروع کیا تھا۔یہ ادارے اتنے بڑے تھے کہ جو کتب یہاں سے جاری ہوئے، وہ زباں زد عام ہوئے۔اس لیےعدنان طارق نے اس زمانے کی بڑی کتب کو بھی اپنی لائبریری کا حصہ بنایا۔
ان کا ماننا ہے کہ ‘ادیب بننے کے لیے پڑھنا بہت ضروری ہے۔ زمانہ طالب علمی سے ہی میں ‘ تعلیم و تربیت’ میں لکھتا تھا۔ اس کے بعد ایک لمبے عرصے کا وقفہ آیا۔ ابتداء میں تو خود اپنی لائبریری سے مستفید ہوا لیکن بعدمیں اس کو بچوں کے لیے عام کیا۔ میں نے ان کتب کا مطالعہ وہاں سے شروع کیا جہاں سے چھوڑ دیا تھا۔’
انہوں نے کہا کہ ‘پاکستان میں ایک افواہ موجود تھی کہ یہاں بچوں کا ادب ختم ہوگیا ہے۔ میرے لکھنے کے بعد ایک مقابلے کی فضاء نے جنم لیا۔ میں نے بچوں کو گلی محلوں کی کہانیوں سے اٹھاکر دنیا کی سیر کرائی اور عالمی دنیا سے ماں بولی کہانیاں لے کر ترجمہ کیا۔’
‘ہمارے ہاں بچوں کو مغرب کے خلاف اور مذہبی کہانیاں سنانے کا رواج عام ہوگیا تھا۔ میں نے اپنے کام میں وسعت پیدا کی اور بچوں کے لیے ایسی کہانیاں لکھنا شروع کی، جس سے وہ مستقبل میں اچھے شہری بن سکے۔ اسی متوازن طرز تحریر اور کہانیوں کی وجہ سے میں جلد مشہور ہوا۔’
ان کے مطابق سات سال تک بچوں کو ہم کامیاب اور موثر شہری بنا سکتے ہیں۔ اس عمر تک اسلام نے بھی بہت ساری چیزوں میں بچوں کو رعایت دی ہے۔میں کہانی لکھتے وقت بچوں کو اپنے گود میں تصور کرتا ہوں۔ انہوں خوبصورت کہانی سناتا ہوں۔ بچے جب کہانی میں گم ہوجاتے ہیں تو غیر محسوس انداز میں انہیں اخلاقی سبق دیتا ہوں۔
عدنان طارق گزشتہ تین سالوں سے مستقل طور پر یو بی ایل ادبی انعام کے لیے منتخب ہو رہے ہیں جبکہ دو دفعہ یہ انعام اپنے نام بھی کرچکے ہیں۔ علاوہ ازیں، ان کے کام پر پانچ ایم فل کے مقالے بھی لکھے گئے ہیں جبکہ ان کی لائبریری کو پی ایچ ڈی کے ایک تحقیقی مقالے کا حصہ بنایا گیا ہے۔