“یہ ڈر نہیں لاعلمی ہے”، بہاولپور کے نوجوان شہر شہر جا کر سانپوں پر تحقیق کیوں کرتے ہیں؟

زندگی اونچ نیچ اور اتارچڑھاؤ سے عبارت ہے۔ یہاں قدم قدم پر انفرادی و اجتماعی زندگی میں حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے میں کوئی بھی حادثہ یا واقعہ انسانی تقدیر کو بدلتے ہوئے اسے مقصد حیات دے جاتا ہے۔ ایسی ہی کہانی منڈی ازمان ضلع بہاولپور کے عبدالرحمان کی ہے۔

عبدالرحمان پیشے کے لحاظ سے ایک سروائیولسٹ (Survivalist) ہے، جنہوں نے اپنی زندگی جنگلی حیات کے بقاء، تحفظ اور لوگوں کو سانپوں سے متعلق علم و آگہی کے لیے اس وقت وقف کی جب انہوں نے صحرائے چولستان کے قلعہ خان گڑھ کے قریب ایک معصوم بچے کو سانپ کے کاٹنے اور لوگوں کی لاعلمی کی وجہ سے مرتے ہوئے دیکھا۔

سال 2016 میں عبدالرحمان دوستوں کے ہمراہ صحرائے چولستان میں واقع تاریخی قلعوں کی سیر کرنے گئے تھے جہاں قلعہ خان گڑھ کے قریب انہوں نے دیکھا کہ ایک بچے کو سانپ نے کاٹ لیا ہے۔ وہاں موجود لوگوں کی لاعلمی کا یہ عالم تھا کہ بچے کو اسپتال کے بجائے قریب ہی کسی جوگی کے پاس لے گئے، مگر واپسی پر معلوم ہوا کہ بچہ زہر قاتل کا مقابلہ نہ کرسکا اور اس دنیا سے چل بسا۔

عبدالرحمان نے تاشقند اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ’اس واقعے کے بعد ابتدائی طور پر میں نے سانپوں پر تحقیق شروع کی تاکہ لوگوں کی لاعلمی کا خاتمہ کرتے ہوئے انہیں اس بارے میں آگاہی دے سکوں۔ ‘

بعد ازاں، ان کی تحقیق کا یہ سلسلہ صرف سانپوں تک محدود نہیں رہا بلکہ مقامی پرندے، درخت اور دیگر جانور بھی اس کے احاطے میں آتے گئے۔ عبدالرحمان اپنی تحقیق کے ذریعے ان کی اہمیت اجاگر کرتے ہیں اور ا ن سے جڑے تمام دقیانوسی خیالات کو عملی طور پر غلط ثابت کرتے ہیں۔

ان کے مطابق تحقیق کے دوران انہیں علم ہوا کہ پاکستان میں جنگلی حیات پر صرف بند کمروں میں بیٹھ کر طلبہ کے ذریعے زیادہ تر کام ہوا ہے۔مقامی افراد اور کمیونٹی کی آگاہی کے لیے کوشش نہ ہونے کے برابر ہے۔ مقامی افراد روزانہ ان جانوروں کا سامنا کرتے ہیں اور بہتر طور پر ان کے تحفظ کے کام آسکتے ہیں۔

عبدالرحمان مارشل آرٹسٹ اور جمناسٹک کے استاد بھی تھے مگر جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے انہوں نے اب یہ کام چھوڑ دیا ہے اور پوری یکسوئی کے ساتھ تحقیق کر ر ہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘پاکستان میں سو سے زائد سانپوں کی نسلیں موجود تھی، تاہم ماحولیاتی تبدیلی اور جنگلات میں کمی کی وجہ سے 84 نسلیں باقی رہ گئی ہیں، جن میں 25 سے زائد پر وہ تحقیق کرچکے ہیں۔’

عبدالرحمان کی تحقیق کا طریقہ بھی ان کے کام اور شوق کی طرح دلچسپ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘جب کبھی مجھے کسی جگہ سانپ کی نایاب نسل کا پتہ چلتا ہے تو میں دوستوں کے ساتھ وہاں جا کر پہلے مرحلے میں مقامی لوگوں سے اس کے متعلق تمام معلومات جمع کرتا ہوں تاکہ مقامی نام اور دیگر چیزیں پتہ چل سکے۔ اس کے بعد واپس آتے ہیں اور پیسے جمع کرتے ہیں۔’

‘دوسرے مرحلے میں کچھ عرصہ بعد واپس اس علاقے کا رخ کرتے ہیں اور سانپ کے رہائشی مقام کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈھونڈنے کے بعد اسی فطری ماحول میں سانپ کے ساتھ وقت گزارتے ہیں، اس کے عادات و اطوار، رویے، شکار کے اوقات اور دیگر ضروری پہلوؤں کا معائنہ کرتے ہیں۔ تیسرے مرحلے میں ان تمام مشاہدات کے نتیجے میں اردو زبان کے اندر ہی وہاں سے لوگوں کو آگاہ کرتے ہیں۔’

عبدالرحمان کے اس کام میں لوگوں کے لیے تفریح کا سامان بھی ہوتا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ‘اس کا مقصد لوگوں میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے۔ میں تھیوری سے زیادہ عملی کام پر یقین رکھتا ہے۔ لہذہ، کئی ایسے سانپ ہوتے ہیں جن کا زہر مضر صحت نہیں ہوتا، اس لیے ویڈیو میں ہی لوگ دیکھ لیتے ہیں کہ اس سانپ کے کاٹنے سے مجھے کچھ نہیں ہوتا۔’

عبدالرحمان اس مہم جوئی کے ساتھ حد درجے تک محبت کرتے ہیں۔ وہ ایک مقامی ہوٹل میں ویٹر کے طور پر کام بھی کرتے ہیں اور وہاں سے اخراجات کا بندوبست کرتے ہوئے ہر تین ماہ بعد کسی مہم پہ نکلتے ہیں۔ ان کا زیادہ تر کام ان جانوروں اور پرندوں پر ہوتا ہے جو معدومیت کا شکار ہیں یا ان کے بارے میں افواہیں زیادہ ہوتی ہیں۔

انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ‘لوگوں میں عام ہے کہ ایک سانپ کو مارنے سے اس کا جوڑا پیچھا کرے گا یا رنگت کی وجہ سے لوگ بعض غیر زہریلے سانپوں کو زہریلا سمجھ لیتے ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ایسے کسی سانپ کے کاٹنے کے بعد لوگ لاعلمی میں اسپتال جاکر اینٹی وینن (Anti Venin) لگاتے ہیں، جو پہلے سے ہمارے ہاں قلت کا شکار ہے۔ ایسے میں جب کسی کو زہریلا سانپ کاٹ دیتا ہے تو پھر اینٹی وینن کی کمی ہوتی ہے۔’

‘ہمارے اس کام سے لوگ غیر زہریلے سانپوں کو جان لیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ماحول کے بارے میں ان کا علم بھی بڑھ جاتا ہے اور ان کا وہم بھی دور ہوجاتا ہے۔ جیسے دو مونہی سانپ کو بہت خطرناک تصور کیا گیا ہے۔ لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ ایک بار کاٹنے سے یہ سانپ ہر چھ ماہ بعد چاند کی چودھویں رات دوبارہ آتا ہے۔ تاہم، اس کے برعکس پاکستان کےسب سے معصوم اور شرمیلے سانپوں میں دو مونہی سانپوں کا شمار ہوتا ہے۔’

عبد الرحمان اس کے علاوہ پاکستان بھر میں اب تک 15 ہزار سے زائد سانپوں کو ریسکیو کرکے انہیں فطری ماحول کے سپرد کرچکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ’سانپوں کے علاوہ دیگر جنگلی جانوروں اور پرندوں کو بھی ریسکیو کیا جاتا ہے جبکہ سانپ کاٹنے کے صورت میں اپنے علاقے میں سروسز بھی مہیا کرتے ہیں۔ کسی کو سانپ کاٹنے کے بعد وہاں جا کر سانپ کی نوعیت اور نسل کا پتہ معلوم کرتے ہیں اور زہریلا نکلنے کی صورت میں متاثرہ شخص کو اسپتال بھیجتے ہیں۔’

انہوں نے مزید کہا کہ’ ہمارے پاس آج کل فصلوں کی کٹائی اور آندھی طوفان کی وجہ سے زیادہ تر پرندے آتے ہیں۔ آج کل میں کانٹوں والے سیہ کی حفاظت کر رہا ہے۔ تربیت دینے کے بعد اس کو اپنے فطری ماحول میں چھوڑ دیا جائے گا۔’

عبدالرحمان اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ہفتے میں ایک روز کسی ورکشاپ اور نمائش کا انعقاد بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ‘حال ہی میں ہم نے “منڈی ازمان میں پائے جانے والے زہریلے اور غیر زہریلے سانپ” کے نام سے طالب علموں اور مقامی لوگوں کے لیے ایک تصویری نمائش کا انعقاد کیا۔’

ان کا خیال ہے کہ’ کوئی بھی جانور اس ماحول میں توازن برقرار رکھنے کے کام آتا ہے۔ ہر مرد وعورت کو اپنے ماحول میں پائے جانے والے مقامی جانوروں کے بارے میں ضرور علم ہونا چاہیے۔ اس کے ذریعے جانوروں سے ڈر کے بجائے محبت پیدا ہوگی اور ہم فطرت کے قریب ہوں گے۔’

Author

اپنا تبصرہ لکھیں