زندان اوروردان

دنیا سمیت پاکستان میں بھی ہرسال کلینڈر بدلتا ہے لیکن سات دہائیوں میں ہمارے فوجی اورسول آمروں کے رویوں اور طرزسیاست میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ماضی کے حکمرانوں کی بدترین ناکامی اوربدنامی سے آگاہ ہوتے ہوئے بھی ہرحکمران اپنے مدمقابل کو قومی سیاست سے”مائنس“ کرنے کی تاک یاگھات میں رہتا ہے۔سیاستدان سیاسی انداز سے ایک دوسرے کامقابلہ کرنے کی بجائے ایک دوسرے کیخلاف سازشوں پراترآتے ہیں۔ہماری ریاست اورسیاست کی تاریخ شاہد ہے کئی ”زورآور“اپنے ناپسندیدہ سیاسی کرداروں کومائنس کرتے کرتے خود”زیر“ہوگئے۔سیاست میں نقب لگانا یاسیاست کوکنٹرول یاکمزورکرنادرحقیقت ریاست کو نحیف و ناتواں کرنا ہے۔سیاست اورسیاسی اداروں کی پائیداری سے ریاست کی مضبوطی کاراستہ ہموار ہوتا ہے۔ ہرریاست کے دوام اوراستحکام کیلئے صحتمند سیاست کااہتمام ناگزیر ہے۔ہماری ریاست کے اندر سیاست میں مداخلت اوراپنے مدمقابل کومائنس کرنے کی متنازعہ مہم جوئی ایوبی آمریت میں شروع ہوئی تھی جوبدقسمتی سے آج تک جاری ہے۔ایوب خان کے دورآمریت میں بنے ”ڈیم“ تو سبھی کویاد ہیں لیکن اس نے اپنے شخصی اقتدار کے دوام اوراستحکام کیلئے ہم وطنوں کوکس طرح ”ڈیم فول“ بنایا وہ کسی کویاد نہیں۔یادرکھیں باوردی ایوب خان کااقتدارپرکوئی اختیاریااستحقاق نہیں تھا،جس طرح ایک باریش یہودی کا اپنے کسی مخصوص اورمنحوس مشن کے دوران سالہاسال تک کسی جامعہ مسجد میں امامت کرنا اورباجماعت نمازیں اداکرنا اس ملعون کوبہشت کامستحق نہیں بناسکتا اس طرح کسی فوجی آمر کے تعمیراتی منصوبوں کی بنیاد پر اس کے شب خون اورماورائے آئین اقتدارکوجائزتصور یاتسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ڈکٹیٹر ایوب خان نے بابائے قوم محمدعلی جناح ؒ کی مدبر ہمشیر اورمشیر مادرملت فاطمہ جناح ؒ کوقومی سیاست سے مائنس کرنے کیلئے جوآمرانہ اورانتہاپسندانہ ہتھکنڈے استعمال کئے وہ ہماری قومی تاریخ کاسیاہ باب ہیں۔آج بھی پاکستان میں مادرملت فاطمہ جناح ؒ کانام عقیدت سے لیا جبکہ ان کے درجات کی بلندی کیلئے خصوصی دعاؤں کااہتمام کیا جاتا ہے،مادرملت آج بھی قوم کی ماؤں اوربیٹیوں کیلئے رول ماڈل ہیں۔جومادرملت کوقومی سیاست سے مائنس کرناچاہتا تھا اسے عوا م کی شدید نفرت دیکھتے ہوئے اقتدار چھوڑناپڑا اورتاریخ نے اسے قصہ پارینہ بنادیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدارکیلئے اپنے مدمقابل شیخ مجیب الرحمن کومائنس کرتے اوردیوار سے لگاتے ہوئے قائدؒ کاپاکستان توڑ دیاتھا۔ ذوالفقارعلی بھٹو محض اقتدار کی خاطر ”اِدھر ہم اُدھر تم“ کا نعرہ لگانے کے باوجود شیخ مجیب الرحمن کو مائنس کرنے میں ناکام رہاتاہم باشعور بنگالی عوام نے اس کی بیٹی شیخ حسینہ کے سیاہ کرتوت دیکھتے ہوئے قومی سیاست سے باپ بیٹی دونوں کو مائنس کرتے ہوئے وہاں دوقومی نظریہ پھر سے زند ہ کردیا۔عوام کے سوادنیا کی کوئی طاقت کسی سیاستدان کواس کی قومی سیاست سے مائنس نہیں کرسکتی۔

ضیائی آمریت میں ذوالفقارعلی بھٹو کوقومی سیاست سے مائنس کرنے کیلئے تختہ دارپرلٹکادیاگیا تھا لیکن ڈکٹیٹر اپنے مذموم ارادوں میں ناکام رہا۔کوئی یہ سچائی تسلیم کرے یانہ کرے لیکن ذوالفقارعلی بھٹو سیاسی طورپرآج بھی زندہ ہے تاہم ضیاء الحق کی موت اس روزہوگئی تھی جس دن بھٹوجیل کی کال کوٹھڑی سے خود چلتا ہوا پھانسی گھاٹ تک گیا تھا۔نام نہاد مردمومن مردحق ضیاء الحق نے اپنی شخصی آمریت کیخلاف توانا آوازوں کودبانے اورمظاہرین کوکچلنے کیلئے کوڑوں اورقیدوبند کاسہارا لیا۔پیپلزپارٹی کاوجودمٹانے کیلئے اس کے اندرنقب لگاتے ہوئے کئی گروپ بنائے گئے جبکہ”آمر“ کے”امر“ سے پیپلزپارٹی کازورتوڑنے کیلئے شہرقائد ؒ سے شہرلاہورتک کئی نیم مردہ سیاسی ومذہبی پار ٹیوں کو ضیائی آمریت کے سلنڈرسے آکسیجن دی گئی لیکن سب کچھ بے سودرہا۔ ضیائی آمریت کی بقاء کیلئے بھٹو خاندان کی خواتین نصرت بھٹو اوربینظیر بھٹوسمیت ان کی حامی عورتوں پربھی تشدد کیاگیاجبکہ ضیائی آمریت کی باقیات کے ہاتھوں بینظیر بھٹو کوبدترین میڈیا ٹرائل کاسامناکرناپڑا۔نوازشریف کی قیادت میں بینظیر بھٹو کیخلاف تحریک نجات کے دوران متعدد بار شٹرڈاؤن اورپہیہ جام ہڑتال کے نام پرجس طرح پرتشدد مظاہروں کے دوران توڑپھوڑکی گئی اورجلاؤگھیراؤکیاگیاہماری سیاست اورصحافت اس کی چشم دید گواہ ہے۔فوجی آمر ضیاء الحق کاادھورامشن پورا کرنے کے دعویدار اورضیائی فلسفہ سیاست کے پہریدار نوازشریف نے اپنی مدمقابل بینظیر بھٹو کو سکیورٹی رسک اورغدارقراردیا لیکن چاروں صوبوں کے عوام نے ذوالفقارعلی بھٹو کی بیٹی بینظیر بھٹو کو دوبار وزارت عظمیٰ کامینڈیٹ دیا جبکہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بھی ان کی جماعت سے مخدوم یوسف رضاگیلانی سمیت راجا پرویزاشرف وزیراعظم منتخب ہوئے اورآج ان کے شوہرآصف علی زرداری بحیثیت صدرمملکت ایوان صدر میں جبکہ مرادعلی شاہ شہرقائدؒ کے تخت پر براجمان ہیں۔نوازشریف نے بینظیر بھٹو جبکہ بینظیر بھٹونے نوازشریف کوقومی سیاست سے مائنس کرنے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن دونوں ناکام رہے۔یادرکھیں انتقامی سیاست ہرمقبول سیاسی قیادت کیلئے مزید رعنائی اورتوانائی کاکام کرتی ہے۔میں پھر کہتا ہوئی کوئی منتقم مزاج حکمران اچھا منتظم نہیں ہوسکتا۔

12اکتوبر1999ء کی شام نوازشریف اورفوجی آمرپرویزمشرف کے درمیان جوکچھ ہوا وہ دوہرانے کی ضرورت نہیں۔پرویزمشرف نے بھی نوازلیگ میں نقب لگاتے ہوئے اس کی کوکھ سے قائداعظم ؒلیگ بنائی جبکہ کنگزپارٹی کو اقتدار اور بھرپورآشیرباد سے نوازا گیا۔نوازشریف کوایوان اقتدار سے زندان میں جانا پڑا۔اپنے اسیرشوہرکی زندان سے رہائی کیلئے بیگم کلثوم نوازکوباامرمجبوری میدان سیاست میں اترناپڑا۔فوجی آمرپرویزمشرف کے وفادارمشیروں نے ایف سی کالج لاہور کے پاس بیگم کلثوم نوازکی کار کوکرین کی مدد سے اٹھادیا جس سے انہیں میڈیا اور عوام میں مزید پذیرائی ملی جبکہ پرویزی آمریت کوہزیمت کاسامنا کرنا پڑا،بعدازاں ڈھیل اورڈیل کے نتیجہ میں شریف خاندان نے اپنی مرضی ومنشاء سے جلاوطنی قبول کرلی جبکہ برادراسلامی ملک سعودیہ نے جدہ کے سرورپیلس میں شریف خاندان کے قیام کاانتظام کیا۔پرویزمشرف کولگا اس نے نوازشریف کوصرف ملک بدرنہیں کیا بلکہ اسے قومی سیاست سے مائنس بھی کردیا ہے لیکن 2004ء میں شہبازشریف کولاہورائیرپورٹ سے ڈیپورٹ کرنیوالے پرویزمشرف کو2008ء میں نوازشریف اورشہبازشریف کودوبارہ گرفتاریاجلاوطن کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔وطن واپسی کے بعد نوازشریف کی اقتدارمیں واپسی جبکہ پرویزمشرف کی عدالت جاتے ہوئے ہسپتال جانے کی تصویر بھی قوم نے دیکھی۔نوازشریف کومشروط طورپر ملک بدر کر نے اورشہرقائدؒ میں متعدد بیگناہ شہریوں کی موت کے بعدمکالہرانے والے پرویزمشرف کی دبئی کے ہسپتال میں بے بسی سے بھرپورموت کامنظر فراموش نہیں کیاجاسکتا۔آج بھی نوازشریف ممبر پارلیمنٹ،اس کابھائی شہبازشریف وزیراعظم جبکہ اس کی بیٹی تخت لاہورپربراجمان ہے جبکہ پرویزمشرف کی سیاسی جماعت کادوردورتک کوئی نام ونشان نہیں،پرویزمشرف کاجنم دن کہاں منایاگیا اوربرسی کس تاریخ کوتھی کوئی نہیں جانتا۔جو نبض شناس لوگ سچائی تک رسائی یقینی بناتے ہیں انہیں اس حقیقت کا علم ہے،کوئی کسی کوقومی سیاست سے مائنس نہیں کرسکتا۔تاہم جوجوکردارمخصوص اشارو ں پر اپنی قیادت اورجماعت کیخلاف باغی بنے وہ بعدازاں داغی اورقصہ ماضی بن کررہ گئے۔ کسی سیاستدان کوقومی سیاست سے مائنس کرنے کامینڈیٹ صرف ووٹر کے پاس ہے۔ضیائی آمریت تودرکنار موت بھی سیاسی قیادت کو مائنس کرنے میں بے بس ہے،ستر کی دہائی سے اب تک پیپلزپارٹی کو ذوالفقارعلی بھٹوکے نام پرووٹ ملتے ہیں۔ذوالفقارعلی بھٹو اورضیاء الحق کے مزارات میں زمین آسمان کے فرق سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔

عمران خان کوقومی سیاست سے مائنس کرنے کے خواہاں لوگ اس خیال بلکہ وہم کواپنے دل سے نکال دیں،یہ ایساخواب ہے جوہرگز شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ جس طرح ماضی میں کوئی سیاستدان سزاؤں کے زورپر سیاست سے مائنس نہیں ہوا،اس طرح آئندہ بھی نہیں ہوگا۔جوسیاستدانوں کومائنس کرنے کی مہم شروع کرتے ہیں،انہیں خود مائنس ہوناپڑتا ہے۔اس ضمن میں تین فوجی آمروں ایوب خان،ضیاء الحق اورپرویزمشرف کے نام تاریخ کاحصہ ہیں۔ یادرکھیں اگرعمران خان کوزورزبردستی مسند اقتدارسے نہ اتاراجاتا توشایدوہ بزدار کی نحوست سے عوا م کے دل سے اترجاتا لیکن کپتان کوایوان سے زندان میں پہنچانا اوراسے اس کی متنازعہ خطاؤں پر سزاؤں کے بھاری بوجھ سے دبانااس کیلئے وردان اورجیون دان بن گیا۔دیکھا جائے تو کپتان پچھلے دوسال سے زندان میں ہوتے ہوئے بھی آزادجبکہ وہ وہاں سے بھی اپنے آزادی اظہارکاحق کابھرپوراستعمال کررہا ہے جبکہ حکمران ایوان اقتدارمیں ہوتے ہوئے بھی محصور ومجبوراور بااصول قیدی کے ساتھ ڈائیلاگ یاڈیل کرنے کے خواہاں ہیں۔جس طرح ضیائی آمریت کے دوران ذوالفقارعلی بھٹو متنازعہ سزائے موت کے نتیجہ میں زندہ وجاویدہوگیا جبکہ بیگم نصرت بھٹو اوربینظیر بھٹو پرتشددنے انہیں سیاسی طورپر مزید قدآوربنادیاتھا،جس طرح پرویزی آمریت کے پرآشوب دورمیں نوازشریف کے ملک بدر جبکہ پولیس فورس کی ایک کاروائی کے دوران بیگم کلثوم نواز کے گاڑی سمیت ہوامیں بلند ہونے سے شریف خاندان کی قومی سیاست پرگرفت مزید مضبوط ہوگئی تھی اس طرح اتحادی حکومت کی چھتری تلے زندان میں کپتان کی قیدتنہائی، اس کے ساتھ ملاقاتوں پرپابندی اورزندان کے باہر اس کی بہادر ہمشیر اورمشیر علیمہ خان سمیت روبینہ خان اورعظمیٰ خان کیخلاف انتقامی کاروائیاں یقینا پی ٹی آئی کے سیاسی وجود کیلئے تازہ ہواکاجھونکا ہیں۔اِدھر حکمران جی جان سے عمران خان کومائنس کرنے کیلئے زورلگارہے ہیں اُدھر وہ عوام میں مزید مقبول اور قومی سیاست کیلئے اہم سے اہم تر ہوتاجارہا ہے۔انتقامی سیاست کی بھٹی نے پی ٹی آئی اوربانی پی ٹی آئی کوکندن بنادیا۔حکمران قیدی کپتان سے معافی کی رَٹ چھوڑیں اوربانی سمیت پی ٹی آئی کیخلاف انتقامی سیاست کی تلافی کریں۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں