عالمی طاقتوں کے مابین تزویراتی برتری کی کشمکش ایک نئے موڑ میں داخل ہو چکی ہے جہاں جوہری بازوؤں کی دوڑ، دفاعی شراکت داریوں کی نئی صورتیں اور علاقائی خدشات بیک وقت مستقبل کی سلامتی کے خدوخال مرتب کر رہے ہیں۔ امریکی محکمۂ دفاع کی حالیہ رپورٹ جسے کانگریس میں ’’چین میں ملٹری اینڈ سکیورٹی ڈیویلپمنٹس‘‘ کے عنوان سے جمع کروایا گیا اسی بدلتی ہوئی عالمی شطرنج کو بیان کرتی ہے، مگر اس انداز میں کہ اس کے ہر نکتے کے پیچھے طاقت کے غیر مرئی توازن، سفارتی امکانات اور عسکری نفسیات کی پوری داستان سمٹی محسوس ہوتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق چین نہ صرف اپنی جوہری صلاحیت میں غیر معمولی پیش رفت دکھا رہا ہے بلکہ اس نے تین نئی تعمیر شدہ تنصیبات میں ایک سو سے زائد بین البراعظمی بیلسٹک میزائل تعینات کرکے اپنی ارلی وارننگ اور کاؤنٹر اسٹرائیک کی قوت کو ایک نئی سطح پر پہنچا دیا ہے۔ یہ پیش رفت محض عسکری اثاثوں میں اضافہ نہیں بلکہ بیجنگ کی اس حکمتِ عملی کی علامت ہے جس کے تحت وہ مستقبل کی کسی بھی ممکنہ اسٹرائیک کے جواب میں ’’توازنِ خوف‘‘ کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
چینی وزارتِ خارجہ نے اس رپورٹ کو روایتی امریکی بیانیے کا تسلسل قرار دیتے ہوئے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ بیجنگ کا مؤقف یہ ہے کہ واشنگٹن ایسی رپورٹس کے ذریعے اپنی جوہری صلاحیت کی جدید کاری کے لیے اخلاقی جواز تراش رہا ہے اور یوں عالمی اسٹریٹجک استحکام کو خود خطرے میں ڈال رہا ہے۔ چین نے یاد دلایا کہ دنیا کے سب سے بڑے جوہری ذخیرے کا مالک امریکہ ہی ہے، لہٰذا تخفیفِ اسلحہ کی ذمہ داری سب سے پہلے اس پر عائد ہوتی ہے۔ اس مؤقف نے ایک بار پھر اس سوال کو تازہ کر دیا ہے کہ آیا طاقتور ریاستیں واقعی عدمِ پھیلاؤ کے اصولوں پر خلوصِ نیت سے کاربند ہیں یا پھر عالمی امن کا بیانیہ بھی طاقت کے مقابلے میں محض ایک سفارتی آلہ بن چکا ہے۔
اسی رپورٹ کا ایک اہم اور ہمارے خطے سے براہ راست متعلق پہلو چین اور پاکستان کی گہری ہوتی ہوئی دفاعی شراکت داری ہے۔ پینٹاگون کے مطابق 2020 سے اب تک چین پاکستان کو 36 جے-10 سی طیارے فراہم کر چکا ہے، جب کہ اسی ماڈل میں مصر، ازبکستان، انڈونیشیا، ایران اور بنگلہ دیش کی دلچسپی کا ذکر بھی سامنے آتا ہے۔ یہ رجحان محض ایک ہتھیار یا ائیرکرافٹ کی فروخت نہیں بلکہ ایک وسیع تر دفاعی ماحولیاتی نظام کی تشکیل کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کے ذریعے چین خود کو عالمی اسلحہ منڈی میں ایک مضبوط متبادل کے طور پر منوا رہا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ طیارے محض تکنیکی اثاثہ نہیں بلکہ فضائی برتری کے توازن میں ایک نفسیاتی اعتماد بھی فراہم کرتے ہیں، جس کا اثر جنوبی ایشیا کی اسٹرٹیجک حرکیات پر براہِ راست پڑتا ہے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں بھارتی خدشات پوری شدت کے ساتھ ابھرتے ہیں۔ نئی دہلی مدتوں سے چین پاکستان دفاعی تعاون کو ایک سہ طرفہ دباؤ کے طور پر دیکھتی ہے، جس میں ایک جانب سرحدی تنازعات اور دوسری طرف پاکستان کے ساتھ روایتی کشیدگی کا عنصر بیک وقت موجود ہے۔ جے-10 سی جیسے جدید لڑاکا طیاروں کی فراہمی بھارت کے لیے محض ایک فوجی چیلنج نہیں بلکہ ایک اسٹرٹیجک پیغام بھی ہے کہ خطے میں طاقت کا ترازو اب یک رخا نہیں رہا۔ یہی احساس بھارت کو اپنے اسلحہ پروگرام کی توسیع، روسی و مغربی دفاعی ٹیکنالوجی تک مزید رسائی اور جوہری ڈیٹرنس کی نئی توجیہات کی طرف دھکیلتا ہے، جس کے نتیجے میں علاقائی ہتھیاروں کی دوڑ ایک بار پھر تیز ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
تاہم محض عسکری نقطۂ نظر سے اس صورتحال کا تجزیہ ادھورا رہتا ہے۔ چین، پاکستان اور دیگر ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی دفاعی شراکتیں دراصل عالمی سفارت کاری کی نئی جہتوں کی نمائندگی کرتی ہیں جہاں اسلحہ ایک معاشی، تکنیکی اور تذویری تعلق کی بنیاد بن جاتا ہے۔ جے-10 سی جیسے پلیٹ فارمز اس بات کی علامت بھی ہیں کہ عالمی اسلحہ مارکیٹ میں مغربی اجارہ داری کو عملی چیلنج درپیش ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چین کی پالیسی یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنی دفاعی مصنوعات کو برآمد کر رہا ہے بلکہ انہیں علاقائی اتحادوں اور تزویراتی اشتراک کے آلۂ کار کے طور پر بھی استعمال کر رہا ہے۔
پاکستان کے لیے یہ تعاون ایک طرف دفاعی خود اعتمادی کو تقویت دیتا ہے تو دوسری طرف اسے ایک نئے بین الاقوامی صف بندی کے مرکز میں لا کھڑا کرتا ہے۔ ایسے ماحول میں اسلام آباد کے لیے سب سے بڑا چیلنج توازن کا ہے ایک طرف امریکہ اور مغرب کے ساتھ سفارتی و معاشی روابط، دوسری طرف چین کے ساتھ اسٹرٹیجک شراکت۔ یہی وہ دوہرا دائرہ ہے جس میں پاکستان کو اپنی سلامتی کی ضرورتوں، معاشی ترجیحات اور علاقائی ذمہ داریوں کے درمیان محتاط توازن قائم رکھنا ہوگا۔ اس توازن کی ذرا سی لغزش مستقبل کی خارجہ پالیسی پر دیرپا اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
جوہری بازوؤں کی دوڑ کے تناظر میں یہ سوال بھی ناگزیر ہے کہ آیا عالمی برادری اس رفتار کو قابو میں لانے کے قابل رہی ہے یا نہیں۔ چین کے میزائل تنصیبات سے متعلق امریکی دعوے، اور اس کے جواب میں بیجنگ کے الزامات، دراصل اسی بڑے بحران کا مظہر ہیں کہ طاقتور ریاستیں ابھی تک تخفیفِ اسلحہ کے کسی مشترکہ لائحۂ عمل پر متفق نہیں ہو سکیں۔ ہر ملک اپنی سلامتی کے بیانیے کو اس انداز میں ترتیب دیتا ہے کہ ہتھیاروں کی توسیع ایک ناگزیر ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے، یوں عدمِ پھیلاؤ کا عالمی ڈھانچہ عملی طور پر کمزور پڑتا جاتا ہے۔
جنوبی ایشیا، جہاں پہلے ہی تاریخی تنازعات، سرحدی تناؤ اور باہمی بد اعتمادی کی وراثت موجود ہے، اس نئی عالمی اسلحہ حرکیات سے سب سے زیادہ متاثر ہو سکتا ہے۔ چین پاکستان دفاعی شراکت اور اس کے نتیجے میں بھارتی تشویش، تینوں فریقوں کو ایک ایسے سکیورٹی پیرائے میں دھکیل سکتی ہے جہاں مکالمہ، اعتماد سازی اور علاقائی تعاون پس منظر میں چلے جائیں، اور ہر ریاست اپنی عسکری صلاحیت کو ہی تحفظ کا بنیادی ذریعہ سمجھنے لگے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں دانش مندانہ سفارت کاری، ذمہ دار میڈیا ڈسکورس اور علاقائی تعاون کے عملی فورمز ناگزیر ہو جاتے ہیں۔
اس تمام منظرنامے کا سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ طاقت کے اس کھیل میں انسانی سلامتی، معاشی فلاح اور خطے کے عوام کی حقیقی ترجیحات اکثر ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں۔ جوہری ہتھیار خواہ کسی بھی طاقت کے پاس ہوں، ان کا وجود ہمیشہ خطرے کی علامت رہتا ہے اور یہی حقیقت عالمی قیادتوں کو اس احساس کی طرف بلاتی ہے کہ اسلحہ کی دوڑ محض فخر یا برتری کا مقابلہ نہیں، بلکہ ایک ایسا بوجھ ہے جو انسانیت کے اجتماعی مستقبل پر سایہ ڈال دیتا ہے۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ چین، امریکہ، بھارت اور پاکستان سمیت تمام علاقائی و عالمی طاقتیں اس نئی تزویراتی فضا کو ٹکراؤ کے بجائے ذمہ دارانہ مکالمے کی طرف موڑیں۔ دفاعی شراکت داریوں کو شفافیت، ضابطوں اور اعتماد سازی کے ساتھ مربوط کیا جائے، اور جوہری صلاحیتوں کو طاقت کے مظاہرے کے بجائے اس ذمہ داری کے ساتھ دیکھا جائے جو انسانی بقا سے جڑی ہوئی ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے طاقت کے اس کڑے اور نازک توازن کو امن، اعتدال اور مشترکہ ذمہ داری کے کسی زیادہ پائیدار قالب میں ڈھالا جا سکتا ہے۔