مفتی شمائل ندوی بمقابلہ جاوید اختر: علم، توحید اور مکالمے کی تاریخی فتح

یہ وہ لمحہ تھا جب فلمی دنیا کی چکاچوند اور سلیبریٹی کی جادوگری، قرآن، منطق اور فلسفہ کے اصولوں کے سامنے ڈھیر ہو گئی۔ ہندوستان کی سرزمین پر ہونے والا یہ مکالمہ محض دو شخصیات کے تصادم کی کہانی نہیں، بلکہ دو متوازی نظریاتی کائناتوں کا تقابل تھا۔ ایک طرف فلمی اور لٹریچر کی دنیا کا شہنشاہ، جاوید اختر، جس نے الفاظ اور مکالمات کے جادو سے کروڑوں دلوں کو مسحور کیا، اور دوسری طرف وہ مردِ قلندر، مفتی شمائل ندوی، جس کے پاس قرآن، فلسفہ اور منطق کے ہتھیار تھے۔

یہ تاریخی ملاقات اس بات کی روشن مثال ہے کہ علم، عقلیت اور حقیقت کی طاقت، کسی بھی باطل کی چرب زبانی، شہرت اور اورا کے سامنے عاجز ہو جاتی ہے۔

۱۔ توحید بمقابلہ سلیبریٹی اورا: نفسیاتی منظرنامہ

جاوید اختر کوئی عام ملحد یا دانشور نہیں ہیں۔ وہ ایک سلیبریٹی دانشور ہیں، جس کے ہر لکھے ہوئے مکالمے پر کروڑوں لوگ تالیاں بجاتے ہیں۔ اس کی شخصیت کا رعب، اورا، اور میڈیا میں شہرت اکثر عام اسکالرز کو مرعوب کر دیتی ہے۔

لیکن مفتی شمائل ندوی یہاں ایک مستحکم چٹان کی مانند کھڑے نظر آئے۔ ان کے دل میں یہ یقین راسخ تھا کہ عزت و ذلت، حیات و موت، سب اسی رب کے ہاتھ میں ہے جس کے لیے دلیل پیش کی جا رہی ہے۔ یہی وہ توحیدی طاقت ہے جو کسی بھی انسانی رعب کو کمزور کر دیتی ہے۔

مفتی صاحب نے جاوید اختر کی انا کو چیلنج کرنے کی بجائے، ان کے علمی موقف کو کٹہرے میں کھڑا کیا۔ یہ پہلی نفسیاتی فتح تھی: سکون، وقار اور علم کے ساتھ باطل کی شان و شوکت کو معمولی ثابت کر دینا۔

۲۔ سقراطی طریقہ: سوال کے ذریعے دلیل کا جال

اکثر ملحدین کے ساتھ براہِ راست دلیل میں الجھنا نقصان دہ ہوتا ہے۔ مفتی شمائل نے سقراطی طریقہ اپنایا: جواب دینے کے بجائے سوالات اٹھا کر مخاطب کی علمی کمزوری کو اجاگر کیا۔

جب جاوید اختر نے کہا:
“میں خدا کو نہیں مانتا کیونکہ مجھے اس کا علم نہیں یا نظر نہیں آتا”،

مفتی صاحب نے فلسفیانہ اور منطقی زاویہ اختیار کیا:
“کیا کسی چیز کا علم نہ ہونا، اس کے وجود نہ ہونے کا ثبوت ہے؟”

یہ نقطۂ نظر، علمیات (Epistemology) کے بنیادی اصول کی عکاسی کرتا ہے: نہ جاننا، لاعلمی کا ثبوت ہے، وجود کا نہیں۔ مثال کے طور پر، اندھا شخص سورج کو دیکھنے سے قاصر ہے، لیکن اس سے سورج کا وجود ختم نہیں ہوتا۔

مفتی صاحب نے بڑے نرم لہجے میں یہ واضح کیا کہ جاوید اختر کا انکار، ذاتی سمجھ اور محدود مشاہدے کی بنیاد پر ہے، جو بذاتِ خود ایک غیر سائنسی رویہ ہے۔

۳۔ مسئلہ خیر و شر: فلسفیانہ اور منطق پر مبنی جواب:

جاوید اختر نے آخری حربے کے طور پر مسئلہ خیر و شر پیش کیا کہ اگر خدا ہے تو دنیا میں دکھ کیوں ہیں؟ یہ دلیل اکثر جذباتی بنیاد پر دی جاتی ہے، منطق پر نہیں۔

مفتی شمائل نے اسے فلسفیانہ زاویہ سے واضح کیا کہ شر کا وجود خدا کے نہ ہونے کی دلیل نہیں، بلکہ انسان کی آزاد مرضی (Free Will) اور اس کی ذمہ داری کی دلیل ہے۔ دنیا ایک امتحانی میدان ہے، نہ کہ صرف آرام اور راحت کا مقام۔ اگر ہر چیز آسان ہوتی، تو زندگی کا مقصد اور انسان کا کردار ختم ہو جاتا۔

یہ وضاحت، بالی وڈ کے اسکرپٹ کے اصول سے بھی ہم آہنگ تھی: ہر کہانی میں مشکل اور ولن ہونا ضروری ہے تاکہ ہیرو کے کردار اور سفر کو مکمل کیا جا سکے۔

۴۔ طنز اور استہزاء کا جواب: مسکراہٹ اور وقار کی حکمت

جاوید اختر کے طنز، استہزاء اور مذہب کو دقیقانوسی ثابت کرنے کی کوششوں کے باوجود، مفتی شمائل نے صبر، وقار اور دلیل کے ساتھ ہر موقف کو رد کیا۔ بدتمیزی کے جواب میں دلیل، طنز کے جواب میں مسکراہٹ یہی وہ حکمت تھی جس نے مکالمے کی طاقت کو واضح کر دیا۔

یہ بات ثابت کر گئی کہ مسلمان جذباتی یا جنونی نہیں ہوتا، بلکہ وہ جس کے پاس حقیقت اور علم کی بصیرت ہو، وہ سکون اور وقار کے ساتھ حق کو پیش کر سکتا ہے۔

۵۔ خلاصہ اور عملی سبق:

یہ مکالمہ ہمارے لیے ایک روشن اور عملی کلاسک کیس اسٹڈی ہے:

علم اصل طاقت ہے: منطق، فلسفہ اور توحید کے علم سے بڑے سے بڑے ملحد کو قابو کیا جا سکتا ہے۔

اسلوب کی اہمیت:
بات کرنے کا انداز اور شائستگی دلیل کے برابر، اور کبھی کبھار دلیل سے بھی زیادہ مؤثر ہوتی ہے۔

مرعوبیت سے نجات:
نام اور شہرت کے باوجود، ہر انسان برابر ہے۔ علم اور حقیقت کی طاقت مستقل اور حتمی ہے۔

مفتی شمائل ندوی نے جاوید اختر کو محض شکست نہیں دی، بلکہ اسے بے نقاب کیا کہ جب اسکرین کا اسکرپٹ رائٹر، کائنات کے سکرپٹ رائٹر (اللہ) کے سامنے بیٹھتا ہے، تو اس کے پاس صرف لاعلمی رہ جاتی ہے۔

فتح علم، وقار اور حق کی ہے

یہ تاریخی مکالمہ ہمیں ایک سچا سبق سکھاتا ہے: کہ حقیقی فتح کبھی طاقت، شہرت یا رعب سے حاصل نہیں ہوتی، بلکہ علم، وقار اور حق کے ساتھ کھڑے ہونے سے ملتی ہے۔ مفتی شمائل ندوی اور جاوید اختر کے درمیان یہ تصادم، دراصل ایک سائنسی، فلسفیانہ اور روحانی تجربہ تھا، جس نے واضح کر دیا کہ جب انسان اپنے دل و دماغ کو علم، منطق اور توحید کی روشنی سے منور کرتا ہے، تو دنیا کے سب سے بڑے باطل بھی بے نقاب ہو جاتے ہیں۔

جاوید اختر جیسے عظیم فنی ہنر مند، جنہیں کروڑوں دلوں کی شہرت اور الفاظ کے سحر نے جادوگر بنایا، جب ایک سادہ مگر مستحکم اور حق پر مبنی موقف کے سامنے آئے، تو ان کا علمی اور فلسفیانہ دفاع لرز گیا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ شہرت کا اورا، چرب زبانی، اور معاشرتی رتبہ، حقیقی علم کے سامنے کچھ بھی نہیں۔

یہ مکالمہ ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ حق کو پیش کرنے کا انداز بھی اہم ہے۔ علم اگر زور و شور، غصے یا جارحانہ رویے کے ساتھ پیش کیا جائے تو اثر محدود رہتا ہے، لیکن جب دلیل، وقار، شائستگی اور حسنِ سلوک کے ساتھ پیش کی جائے تو دلوں اور دماغوں میں گہرائی تک اثر ڈالتی ہے۔ مفتی شمائل ندوی نے طنز کو مسکراہٹ، بدتمیزی کو دلیل اور سوالات کو فلسفیانہ منطق کے ساتھ جواب دے کر یہ عملی ثبوت دیا کہ مکالمے کی طاقت مناظرے کی جارحیت سے ہزار گنا زیادہ ہے۔

یہ ملاقات ہمیں ایک اہم فکری سبق بھی دیتی ہے: کہ علم اور حقیقت کے راستے میں کسی بھی انسان کی شہرت یا طاقت حائل نہیں ہو سکتی۔ جاوید اختر جیسے زیرک اور بافطانت لوگ بھی اس علم کے سامنے عاجز ہو گئے، کیونکہ انہوں نے حقیقت کے اس آئینے کو نہ سمجھا جو مفتی شمائل کے دل و دماغ میں جھلک رہا تھا۔

مزید برآں، یہ مکالمہ ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ دنیا کی مشکلات، دکھ اور آزمائشیں، کسی بھی فلسفے یا عقیدے کے لیے رکاوٹ نہیں، بلکہ انسان کے فہم، شعور اور روحانی ترقی کا ذریعہ ہیں۔ مفتی صاحب نے نہ صرف اس علمی مسئلے کو فلسفیانہ اور منطقی زاویے سے واضح کیا بلکہ یہ بھی دکھایا کہ انسانی عقل اور توحید کی روشنی میں دنیا کی ہر مشکل اور ہر سوال کا جواب تلاش کیا جا سکتا ہے۔

آخر میں، یہ تاریخی مکالمہ یہ ثابت کرتا ہے کہ مناظرے اور جھگڑوں کی دنیا کے بجائے مکالمہ، دلیل اور وقار کا راستہ اختیار کرنا ہی حقیقی فتح ہے۔ فتح ہمیشہ حق کی ہوتی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ حق کو پیش کرنے والا علم، منطق، توحید اور اخلاقیات سے مزین ہو۔ یہ درس ہمیں نہ صرف علمی و فلسفیانہ بصیرت دیتا ہے بلکہ ایک طرزِ زندگی کی رہنمائی بھی فراہم کرتا ہے، جس میں ہر نوجوان، ہر طالب علم اور ہر مسلمان علم، وقار اور حق کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہو سکتا ہے۔

اگر ہم اخلاقیات، شائستگی، مہذب مکالمات، دلائل، علم اور حق کی روشنی کو اپنا ہتھیار بنالیں۔ تو یہی وہ راستہ ہے جو نہ صرف دل و دماغ جیتتا ہے بلکہ روحانی سکون اور حقیقی کامیابی کی ضمانت بھی فراہم کرتا ہے۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں