دنیا میں ہونے والے کسی بھی بڑے پُرتشدد واقعے کے بعد سب سے پہلا اور سب سے خطرناک ردعمل یہ ہوتا ہے کہ ذمہ داری فرد کے بجائے کسی مذہب، قوم یا تہذیب پر ڈال دی جائے۔ آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں بونڈی بیچ پر پیش آنے والے فائرنگ کے افسوسناک واقعے کے بعد بھی یہی خدشہ سر اٹھا رہا ہے کہ اس سانحے کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کے خلاف نفرت، خوف اور بدگمانی میں اضافہ کیا جائے گا۔ ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ ایسے واقعات کے بعد عام مسلمان شہری، جن کا نہ اس تشدد سے کوئی تعلق ہوتا ہے اور نہ ہی وہ اس کی حمایت کرتے ہیں، نفرت، امتیازی سلوک اور بعض اوقات براہِ راست حملوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ اس تناظر میں یہ سوال نہایت اہم ہے کہ اسلام اس صورتحال کو کس طرح دیکھتا ہے اور غزہ میں جاری مظالم کے ردعمل میں مسلمانوں کے جذباتی رویوں کی حد کہاں تک ہے۔
تشدد کا کوئی بھی واقعہ، خواہ وہ کسی بھی مذہب یا نظریے کے نام پر کیا جائے، اسلام کے بنیادی تصورِ حیات سے متصادم ہے۔ قرآن واضح طور پر یہ اصول بیان کرتا ہے کہ ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ یہ حکم کسی خاص قوم، نسل یا مذہب تک محدود نہیں بلکہ عالمگیر ہے۔ اسی لیے اسلام میں اجتماعی ذمہ داری کا تصور موجود نہیں۔ کسی فرد یا گروہ کے جرم کی سزا پوری قوم یا مذہب کو دینا نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ خود ظلم کی ایک شکل ہے۔
دنیا میں یہود دشمنی ایک تاریخی حقیقت ہے، مگر اس حقیقت کی جڑیں زیادہ تر یورپی، نسلی اور کلیسائی سیاست میں پیوست ہیں، نہ کہ اسلامی تہذیب میں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب یورپ میں یہودیوں کو قتل، جلاوطنی اور نسلی نفرت کا سامنا تھا، اس وقت مسلم دنیا کے کئی خطوں میں وہ نسبتاً محفوظ اور باعزت زندگی گزار رہے تھے۔ اندلس، بغداد اور عثمانی خلافت اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ اسلام نے کبھی یہ تعلیم نہیں دی کہ یہودی بطور قوم یا مذہب قابلِ نفرت ہیں۔ قرآن اہلِ کتاب کے بارے میں ایک متوازن رویہ اختیار کرتا ہے، جہاں غلطیوں پر تنقید بھی ہے اور نیکی، علم اور انصاف کی تعریف بھی۔ قرآن صاف الفاظ میں کہتا ہے کہ اہلِ کتاب سب ایک جیسے نہیں۔
غزہ میں جاری انسانی المیے نے پوری مسلم دنیا کو شدید غم و غصے میں مبتلا کیا ہے۔ عورتوں، بچوں، اسپتالوں اور عام شہریوں پر ہونے والے حملے ہر ضمیر رکھنے والے انسان کو جھنجھوڑ دیتے ہیں۔ اس درد اور غصے کا اظہار فطری ہے، مگر اسلام جذبات کو بے لگام تشدد میں بدلنے کی اجازت نہیں دیتا۔ قرآن کا اصول ہے کہ کسی قوم کی دشمنی انسان کو ناانصافی پر نہ ابھارے۔ ظلم کے خلاف کھڑا ہونا فرض ہے، مگر اس ظلم کا جواب کسی اور بے گناہ پر اتارنا اسلام کے نزدیک خود ایک بڑا ظلم ہے۔
یہ بات نہایت واضح ہونی چاہیے کہ غزہ کے مظالم کے ردعمل میں دنیا بھر میں یہودیوں کو نشانہ بنانا نہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے، نہ اخلاقی طور پر درست اور نہ ہی انسانی اقدار کے مطابق۔ اسلام نہ نسلی نفرت کی اجازت دیتا ہے، نہ مذہبی بنیاد پر قتل کو جائز قرار دیتا ہے، اور نہ ہی اجتماعی انتقام کے تصور کو قبول کرتا ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ کی سیرت اس حوالے سے نہایت واضح رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ آپ ﷺ نے یہودی پڑوسیوں کے حقوق ادا کیے، ان کے ساتھ معاہدے کیے اور حتیٰ کہ ایک یہودی کے جنازے کے احترام میں کھڑے ہوئے۔ یہ رویہ اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ اسلام کا تعلق انسانیت سے ہے، نہ کہ نفرت سے۔
آج دنیا کو جس فرق کو سمجھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ یہود دشمنی اور اسرائیلی ریاستی پالیسیوں پر تنقید دو الگ چیزیں ہیں۔ کسی ریاست کے ظلم پر آواز اٹھانا، فلسطینی عوام کے حق میں بولنا اور انسانی حقوق کا مطالبہ کرنا نہ یہود دشمنی ہے اور نہ ہی اسلام کے خلاف۔ لیکن اگر یہ آواز نفرت، قتل اور انتقام میں بدل جائے تو یہ نہ صرف اسلام کے اخلاقی اصولوں کی نفی بن جاتی ہے بلکہ مظلوم کے مقدمے کو بھی کمزور کر دیتی ہے۔
اسلام امن، عدل اور اخلاق کا مذہب ہے۔ وہ غصے کو عدل کے تابع کرتا ہے اور ردعمل کو اصولوں کی حد میں رکھتا ہے۔ اگر مسلمان جذبات میں آ کر دنیا کے کسی بھی حصے میں بے گناہ یہودیوں یا کسی اور مذہب کے لوگوں کو نشانہ بنائیں تو وہ اسلام کی نہیں بلکہ ظلم اور نفرت کے بیانیے کی خدمت کریں گے۔ آج کی دنیا میں سب سے زیادہ ضرورت اسی بات کی ہے کہ ظلم کے خلاف مضبوط، مگر منصفانہ آواز اٹھائی جائے اور یہ واضح کیا جائے کہ اسلام کا پیغام انسانیت کے لیے ہے، نفرت اور قتل کے لیے نہیں۔
[مضمون نگار ڈاکٹر تنویر قاسم نے اسلام، یہودیت اور عیسائیت کے تصوراتِ امن و جنگ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ وہ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے شعبۂ علومِ اسلامیہ میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ تدریس اور صحافت دونوں شعبوں سے وابستگی رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یو ای ٹی لاہور میں پبلک ریلیشنز آفیسر کے طور پر بھی اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن میں ڈائریکٹر کوآرڈی نیشن کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اسلام، عالمِ اسلام اور عصری سماجی مسائل پر ان کی گہری نظر ہے اور وہ نت نئے اور اہم موضوعات پر مسلسل قلم اٹھاتے رہتے ہیں