آسٹریلیا کے شہر سڈنی کے معروف ساحلی علاقے بونڈائی بیچ پر یہودی تہوار کے دوران ہونے والی فائرنگ کے واقعے میں 40 افراد کو اسپتال منتقل کیا گیا، جن میں دو پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ پولیس کے مطابق دونوں اہلکاروں کی حالت تشویشناک مگر خطرے سے باہر ہے۔ زخمیوں کی عمریں 10 سے 87 سال کے درمیان ہیں۔
پولیس نے حملہ آوروں کے نام سرکاری طور پر جاری نہیں کیے، تاہم ریاستی نشریاتی ادارے اے بی سی اور مقامی میڈیا نے انہیں ساجد اکرم اور ان کے بیٹے نوید اکرم کے طور پر شناخت کیا ہے۔ حکام کے مطابق والد کے پاس 2015 سے اسلحہ لائسنس تھا اور اس کے نام پر چھ ہتھیار رجسٹرڈ تھے، جبکہ بیٹا آسٹریلیا میں پیدا ہوا شہری ہے۔ ایک حملہ آور ماضی میں حکام کے علم میں تھا، تاہم اسے فوری خطرہ قرار نہیں دیا گیا تھا۔
واقعے کے بعد حملہ آوروں کی گاڑی سے داعش کے دو جھنڈے بھی برآمد ہونے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں، اگرچہ پولیس نے اس کی سرکاری تصدیق نہیں کی۔ عینی شاہدین کے مطابق حملے میں بولٹ ایکشن رائفل اور شاٹ گن کا استعمال کیا گیا، جبکہ فائرنگ تقریباً 10 منٹ تک جاری رہی، جس کے باعث ہزاروں افراد میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
فائرنگ کے دوران ایک شہری نے حملہ آور کو قابو میں لے کر اسلحہ چھین لیا، تاہم وہ خود بھی گولی لگنے سے زخمی ہو گیا۔ مقامی میڈیا کے مطابق اس شخص کی شناخت احمد ال احمد کے نام سے ہوئی ہے، جو ایک دکاندار ہے اور اس کی جان بچانے پر اسے ہیرو قرار دیا جا رہا ہے۔
آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانیزی نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے دہشت گردی اور یہود مخالف نفرت پر مبنی حملہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اسلحہ قوانین پر مزید سختی پر غور کرے گی، خصوصاً اس بات پر کہ ایک لائسنس کے تحت کتنے ہتھیار رکھے جا سکتے ہیں اور لائسنس کی مدت کیا ہونی چاہیے۔
عالمی رہنماؤں نے بھی حملے کی مذمت کی ہے اور اظہارِ تعزیت کیا ہے۔ بونڈائی بیچ پر متاثرین کی یاد میں عارضی یادگار قائم کر دی گئی ہے، جہاں لوگ پھول رکھ کر خراجِ عقیدت پیش کر رہے ہیں۔یاد رہے کہ آسٹریلیا میں بڑے پیمانے پر فائرنگ کے واقعات نایاب ہیں، اور یہ واقعہ 1996 کے بعد ملک کا بدترین حملہ قرار دیا جا رہا ہے