دنیا ایک بار پھر اس دوراہے پر کھڑی ہے جہاں عالمی سیاست کی سمتوں کا فیصلہ سفارت کاری سے زیادہ بارود اور اسٹیل کرتا دکھائی دیتا ہے۔ امن کے داعی ادارے اگرچہ مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ تصادم کی بڑھتی لہر کسی بڑے عالمی بحران کا پیش خیمہ بن سکتی ہے، مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ جنگی سازوسامان کی مانگ ریکارڈ رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ اس کا تازہ ترین ثبوت اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (SIPRI) کی وہ رپورٹ ہے جس کے مطابق 2024 میں دنیا کی 100 سب سے بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں کی مجموعی آمدنی 5.9 فیصد کے غیر معمولی اضافے کے ساتھ 679 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ یہ اضافہ محض چند مارکیٹوں کی تبدیلی کا نتیجہ نہیں بلکہ عالمی سطح پر پھیلی بے یقینی، بڑھتی کشیدگی اور جنگوں کے پھیلتے دائرے کا عکس ہے۔
یوکرین اور روس کے درمیان جاری جنگ نے نہ صرف یورپ کی عسکری سوچ بدل دی ہے بلکہ اسلحہ پیدا کرنے والی صنعت کو بھی ایک نئے تجارتی عروج تک پہنچا دیا ہے۔ مشرقی یورپ سے لے کر اسکنڈے نیویا تک وہ ممالک جو برسوں سے دفاعی بجٹ محدود رکھنے کی روایت پر قائم تھے، اب تیزی سے جدید ہتھیار خریدنے کی دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں۔ ان ممالک کے خدشات محض جذباتی نہیں بلکہ یوکرینی میدانِ جنگ سے آنے والی روزانہ کی تصاویر اور رپورٹس نے انہیں باور کرایا ہے کہ کسی بھی لمحے دفاعی تیاری میں معمولی کمزوری بھاری نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ یہی احساس اسلحہ ساز کمپنیوں کے منافع کو ایک نئے خطّے میں لے آیا ہے جہاں یورپی پیداوار اور سرمایہ کاری دونوں میں خاطر خواہ اضافہ دیکھا گیا۔
اسی دوران، مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل اور غزہ کے درمیان جاری تباہ کن جنگ نے خطے کی عسکری ضروریات کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق غزہ میں جاری کارروائیوں نے نہ صرف اسرائیل کے اسلحہ اسٹاک کو متاثر کیا بلکہ علاقائی طاقتوں کو بھی ایک بڑے تصادم کے خدشات کے پیشِ نظر اپنے ہتھیاروں کے ذخائر میں اضافہ کرنا پڑا۔ ایران، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر جیسے ممالک نے گزشتہ برس کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑے دفاعی معاہدے کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار مشرق وسطیٰ کی نو کمپنیاں ٹاپ 100 کی فہرست میں شامل ہوئی ہیں، جو اس بات کا اظہار ہے کہ یہ خطہ اب اسلحہ پیدا کرنے اور برآمد کرنے والے بڑے مراکز میں شمار ہونے لگا ہے۔
امریکی اسلحہ ساز صنعت اپنی طاقت اور وسعت کے باعث بدستور اس فہرست میں سرِفہرست ہے۔ نہ صرف امریکی کمپنیوں نے اپنا مارکیٹ شیئر برقرار رکھا ہے بلکہ جدید ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، بغیر پائلٹ کے نظام اور میزائل ڈیفنس سسٹمز میں سرمایہ کاری کے باعث ان کی آمدنی میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ امریکہ کی جنگی حکمت عملی پہلے سے زیادہ ٹیکنالوجی پر انحصار کرتی ہے، اور یوکرین سمیت مختلف خطوں کو جاری فوجی امداد بھی اس کاروبار کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
روس کی عسکری صنعت کے معاملے میں تصویر بظاہر مختلف لیکن حقیقت میں کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ مغربی پابندیوں نے بلاشبہ روسی کمپنیوں کے لیے مشکلات پیدا کیں، مگر بیرونی دباؤ کے باوجود روسی پیداوار میں 23 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ پابندیوں سے کٹے ہوئے ماحول نے روسی صنعت کو خود کفالت کی طرف تیزی سے دھکیلا، اور جنگی حالات نے ملک کے اندر عسکری پیداوار کی طلب کو مزید بڑھا دیا۔ البتہ ماہر مزدور کی کمی روسی دفاعی شعبے کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے، جس نے کئی منصوبوں کی رفتار کو متاثر کیا۔
اسی دوران ایشیا اور اوشینیا میں صورتِ حال یکسر مختلف ہے۔ چین، جو گزشتہ دو دہائیوں سے عالمی اسلحہ مارکیٹ کا ابھرتا ہوا دیو سمجھا جاتا تھا، اب اپنی عسکری صنعت میں سست روی کا سامنا کر رہا ہے۔ تجزیات کے مطابق یہ کمی صرف معاشی مسائل کا نتیجہ نہیں بلکہ اندرونی صنعتی ڈھانچے، سپلائی چین کے دباؤ اور حکومتی اصلاحات کا امتزاج ہے۔ چینی کمپنیوں کی آمدنی میں کمی نے مجموعی طور پر ایشیائی مارکیٹ کو متاثر کیا، حالانکہ بھارت، جنوبی کوریا اور جاپان جیسے ممالک دفاعی بجٹ بڑھانے کے باوجود اس کمی کو پورا نہ کر سکے۔
عالمی اسلحہ تجارت کی یہ غیر معمولی وسعت ایک گہرا سوال بھی اٹھاتی ہے: کیا دنیا امن کی جانب بڑھ رہی ہے یا تصادم کے ایک نئے باب کی طرف؟ دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی طلب خود ایک عنصر کے طور پر تناؤ کو مزید بڑھاتی ہے، کیونکہ جب خطے اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کرتے ہیں تو پڑوسی ممالک بھی ردِ عمل میں اسی سمت قدم بڑھاتے ہیں، اور یوں عسکری مقابلہ زمین کے مختلف حصوں میں ایک مستقل عمل کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عالمی سیاست میں طاقت کا توازن آج تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ اقتصادی دباؤ، جغرافیائی مسابقت، وسائل کی لڑائی، نظریاتی تقسیم اور سرد جنگ کے بعد پیدا ہونے والا خلاء اب ایک ایسے ماحول کو جنم دے رہا ہے جہاں عسکری طاقت دوبارہ مرکزی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ ہتھیار ساز صنعتوں کا منافع اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا کے بڑے ممالک تنازع سے بچنے کے بجائے ممکنہ تصادم کی تیاری میں زیادہ دل چسپی لیتے دکھائی دے رہے ہیں۔
ان تمام عوامل کا مجموعی نتیجہ یہ ہے کہ عالمی اسلحہ صنعت تاریخ کی سب سے بلند سطح پر پہنچ چکی ہے، اور 2024 کا سال اس بڑھتی ہوئی جنگی معیشت کا ایک ناقابلِ فراموش سنگِ میل بن کر سامنے آتا ہے۔ لیکن سوال اپنی جگہ موجود ہے: جب اسلحہ بیچنے والوں کے لیے جنگ منافع کا بہترین ذریعہ بن جائے تو امن کس کے مفاد میں باقی رہتا ہے؟ یہ سوال شاید اقوامِ متحدہ سے زیادہ عالمی ضمیر کے دروازے پر دستک دیتا ہے، مگر بدقسمتی سے تاریخ نے بارہا ثابت کیا ہے کہ جب بارود کی بو پھیلتی ہے تو انسانیت کی آواز اکثر پس منظر میں دھندلا جاتی ہے۔
عالمی رپورٹیں آنے والے برسوں کے لیے بھی اسی رجحان کی پیشگوئی کر رہی ہیں۔ اگر دنیا اپنی موجودہ سمت پر قائم رہی تو دفاعی اخراجات مزید بڑھیں گے، تنازعات مزید پیچیدہ ہوں گے، اور اسلحہ ساز صنعت اپنی نئی بلندیوں کو چھوتی رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ آج عالمی امن کے لیے سب سے بڑا چیلنج جنگ کا خاتمہ نہیں بلکہ اس سوچ کا خاتمہ ہے جو اسے ایک منافع بخش صنعت میں بدل دیتی ہے۔ دنیا جب تک اس بنیادی تضاد کو نہیں سمجھتی، اس وقت تک اسلحہ ساز کمپنیاں ریکارڈ کمائیں گی اور انسانیت ریکارڈ کھوئے گی