لاہور میں جماعت اسلامی کا تین روزہ “بدل دو نظام” اجتماع عام ایک اہم سیاسی اور فکری موڑ ہے، جو جماعت کی ہمہ جہتی حکمتِ عملی اور طویل مدتی وژن کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ اجتماع 21 تا 23 نومبر 2025 کو مینارِ پاکستان گراؤنڈ، گریٹر اقبال پارک میں منعقد ہوا ہے، اور اس کا مقصد محض ایک جلسہ نہیں بلکہ ملک گیر پرامن تحریک کے آغاز کا عندیہ دینا ہے۔ اجتماع کا مرکزی نعرہ “بدل دو نظام” ہے، جو جماعت اسلامی کا یہ موقف عیاں کرتا ہے کہ پاکستان کے موجودہ نظام میں بدعنوانی، ناانصافی اور طبقاتی تفاوت بہت گہری ہے اور اسے اسلامی اصولوں پر مبنی ایک نئے اور منصفانہ معاشرتی اور سیاسی نظام کے ذریعے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے افتتاحی خطاب میں قوم کو مخاطب کرتے ہوئے واضح کیا کہ ان کا مطالبہ وہ نظام ہے جہاں حاکمیت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ہو، اور قوانین قرآن و سنت کے منافی نہ ہوں۔
اجتماع کے پہلے روز (21 نومبر) کو نمازِ جمعہ کے بعد افتتاحی سیشن ہوا، جس میں تلاوتِ قرآن اور نعتِ رسول ﷺ کے بعد جماعت کی قیادت نے خطاب کیا۔ ملک بھر سے لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی، اور موقع پر نظم و ضبط، جوش اور عزم کی واضح جھلک تھی۔ جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ پورے ملک میں “فرسودہ اور کرپٹ” نظام کے خلاف ایک پرامن مگر مستحکم تحریک کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔ اجتماع کے دوران مختلف سیشنز کا اہتمام کیا گیا جن میں مخصوص موضوعات پر خطاب اور لیکچرز دیے گئے۔ دوسرے دن (22 نومبر) کو اسلامی نظامِ معیشت، سیاست اور سماجی توازن پر فکری تربیتی اجلاس ہوئے، جہاں نوجوان، خواتین اور دیگر شرکا کو نئے نظام کا لائحہ عمل سمجھانے کی کوشش کی گئی۔ خواتین کے لیے الگ پنڈال بنایا گیا ہے جس سے انتظامی نظم و شرافت کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔ اجتماع کا آج آخری روز ہے،جس میں جماعت اسلامی متوقع طور پر اپنا آئندہ لائحہ عمل پیش کرے گی اور تحریک “بدل دو نظام” کو رسمی حیثیت دے گی۔اس موقع پر ایک قوم کے نام پیغام دیا جائے گا، اور جماعت کی قیادت مستقبل میں تحریک کو آگے لے جانے کے عزم کا اظہار کرے گی۔
جماعت اسلامی کے مطابق یہ اجتماع بین الاقوامی بھی ہے،جس میں دنیا بھر کی اسلامی تنظیموں اور رہنماؤں کو دعوت دی گئی ہے، اور مختلف ممالک سے مندوبین شریک ہیں۔جماعت اسلامی کے ذمہ داران کا خیال ہے کہ اس طرح یہ محض ملکی نہیں، بلکہ عالمی سطح پر ایک پلیٹ فارم بن سکتا ہے جو اسلام اور عدل پر مبنی نظام کی طرف ایک متحرک تحریک کی علامت ہو۔
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے بیان کیا ہے کہ اجتماع کے ذریعے وہ ایک نیا سیاسی متبادل پیش کرنا چاہتے ہیں، جو صرف اقتدار کے حصول کی جدوجہد نہ ہو بلکہ ایک فکری اور عملی تبدیلی لائے۔ان کا کہنا ہے کہ نوجوان، محنت کش، غریب اور متوسط طبقے کو وہ مواقع ملنے چاہئیں جو موجودہ نظام میں ان سے چھین لیئے گئے ہیں۔ انہوں نے مزدوروں کے حقوق، صحت اور تعلیم کی فراہمی، اور معیشت میں شفافیت جیسے بنیادی امور کو اپنی ترجیح قرار دیا ہے۔
ایک اور نمایاں پہلو مذہبی اور نظریاتی بنیاد ہے۔ جماعت اسلامی اس بات پر زور دیتی ہے کہ تبدیلی صرف سیاسی نہیں بلکہ اسلامی اصولوں کی روشنی میں ہونی چاہیے۔ حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ ان کا مطالبہ وہ نظام ہے جو قرآن اور سنت کی بنیاد پر ہو، اور کسی بھی قانون سازی میں اسلامی احکامات کی نفی نہ ہو۔انہوں نے 26ویں اور 27ویں آئینی ترمیمات کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ ترمیمات بلند طبقوں کو فائدہ پہنچاتی ہیں اور عام آدمی کے حقوق پامال کرتی ہیں۔
اجتماع کی سیاسی اہمیت بھی کم نہیں۔میرے خیال میں “بدل دو نظام” تحریک جماعت اسلامی کے لیے ایک آزمائشی مرحلہ ہے، جس کے ذریعے وہ اپنی مقبولیت بڑھا سکتے ہیں اور اپنے طویل مدتی لائحہ عمل کو ایک وسیع عوامی تحریک میں تبدیل کر سکتی ہیں۔خاص طور پر یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا جماعت اسلامی اس اقدام کے دوران پارلیمانی سیاست میں اپنا وجود مضبوط کرتی ہے یا پھر باضابطہ احتجاجی اور تنظیمی مہمات شروع کرتی ہے۔ لیکن اس جدوجہد کے راستے میں چیلنجز بھی کم نہیں۔ موجودہ سیاسی ڈھانچہ، طاقتور سیاسی اور اقتصادی حلقوں کی مزاحمت، اور ریاستی اداروں کے ساتھ کشمکش ممکن ہے۔ جماعت اسلامی کا یہ اجتماع ایک حوصلہ افزا آغاز ہے، مگر اس کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ یہ تحریک اپنی مقبولیت اور تنظیمی قوت کے ذریعے کس حد تک ملک گیر سطح پر مستحکم رکھ سکتی ہے۔
آخرکار، “بدل دو نظام” اجتماع عام ایک نقطہ عروج ہے، یہ ایک تصوراتی اور عملی تحریک کا آغاز ہے، جو جماعت اسلامی کو محض ایک مذہبی جماعت سے آگے لے جا کر ایک قومی اور فکری تحریک کی حیثیت دے سکتا ہے۔ اگر اس اجتماع میں پیش کردہ نظریاتی اصول اور مقاصد ایمانداری اور تسلسل کے ساتھ آگے بڑھائے جائیں، تو یہ پاکستان میں ایک نئے دور کی شروعات بھی ثابت ہو سکتا ہے، جہاں عدل، شفافیت اور اسلامی نظام کے اصولوں کی بنیاد پر معاشرتی اور سیاسی اصلاحات ممکن ہوں۔