رفتارِ عالم اکتوبر 2025ء تک: تناؤ، معیشت، اور نئے توازن

عالمِ نو کی رفتار آج اتنی پیچیدہ اور متغیر ہے کہ ایک نظر میں حالات بدل جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ 2025 کے اکتوبر تک عالمی صورتِ حال چند واضح رجحانات اور نمایاں جھٹکوں کا مجموعہ ہے: (1) علاقائی جنگی تناؤ اور بڑھتی ہوئی عسکری کشیدگیاں، (2) معیشتی غیر یقینی اور مرحلہ وار سست روی، (3) موسمیاتی و ماحولیاتی دباؤ، اور (4) تکنیکی انقلاب خاص طور پر مصنوعی ذہانت کے نتیجے میں عالمی سیاست و معیشت میں نئے تقاضے۔ یہ چاروں محور ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کو متاثر کر رہے ہیں۔

عسکری محاذ پر دو بڑی لہریں خاص توجہ طلب ہیں۔ ایک یورپ میں روس-یوکرین تنازعہ ہے جو 2022 کے بعد بھی مکمل طور پر تحلیل نہیں ہوا؛ اکتوبر 2025 میں روس کی جانب سے توانائی (گیس) انفراسٹرکچر پر براہِ راست فضائی/ڈرون حملے اور زمینی پیش رفت کی اطلاعات نے خطے میں توانائی سیکورٹی کے خدشات کو مزید بڑھا دیا جس کا فوری اثر سردیوں کے لیے یورپی توانائی منصوبہ بندی اور عالمی توانائی بازاروں پر پڑ رہا ہے۔ ایسے حملے واضح طور پر اس بات کا اظہار ہیں کہ جنگ نے محض محاذی جھڑپیں نہیں رہیں بلکہ بنیادی شہری انفراسٹرکچر کو ہدف بنا دیا ہے، جس کا معاشی و انسانی نقصان طویل المعیاد ہو گا۔

دوسری جانب مشرقِ اوسط میں اسرائیل-غزہ کشمکش کے معاملات اکتوبر 2025 میں ایک نازک مگر فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکے تھے: تبادلے، قیدیوں کی واپسی، اور انسانی امداد کی راہ و رسائی جیسے مسائل نے عبوری امن کو ہچکولے دیے۔ اس کشمکش کے انسانی پہلو شہادتیں، تباہی اور حراستی مسائل عالمی امدادی و سفارتی ترتیبات کو کڑی آزمائش میں ڈال رہے ہیں اور خطے کی استحکام پذیری کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔

معاشی منظرنامہ بھی نسبتاً غیر یقینی رہا۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے اکتوبر 2025 میں جاری اپنی رپورٹس میں عالمی نمو میں سست روی کی نشاندہی کی اگرچہ چند خطوں میں بحالی کے آثار ہیں، مگر ‘رولنگ شاکس’ (متواتر جھٹکے) اور سیاسی غیر یقینی کی وجہ سے عالمی معیشت کے لیے خطرات برقرار ہیں۔ افراطِ زر، قرضوں کا بوجھ، اور توانائی/خوراک کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ نے کئی حکومتوں کی معاشی پالیسیوں کو متضاد تقاضوں میں پھنسا دیا افزائش بحال رکھنا اور بیک وقت زر مبادلہ و معاشی استحکام برقرار رکھنا بیلنس کا امتحان بن گیا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے خبردار کرتے ہیں کہ دنیا ایک ‘لچکدار مگر مخدوش’ مرحلے میں ہے جہاں پالیسی غلطیوں کا قیمت بھاری ہو سکتی ہے۔

موسمیاتی اور ماحولیاتی دباؤ بھی عالمی رویوں کی تشکیل میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ پچھلے چند برسوں میں انتباہی درجہ حرارت، سیلابی واقعات اور خشک سالیوں نے ملکوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ فوری موافقتی (adaptation) اور ہنگامی تیاریوں پر خرچ بڑھائیں۔ بین الاقوامی فورم پر ماحولیات کے موضوعات اب صرف ماحولیاتی تقاضے نہیں؛ وہ معیشت، سیکیورٹی اور تارکینِ وطن کے مسائل سے منسلک مضبوط دباء ہیں۔ اسی تناظر میں توانائی ٹرانزیشن، نیٹ زیرو اہداف اور کاربن نِیٹ ورک کے سیاسی تنازعات نے عالمی مذاکرات کو نئے زاویوں سے متاثر کیا۔ (اقوامِ متحدہ کے نمائندہ بیانات نے عالمی مشترکہ کارروائی کی ضرورت پر زور دیا ہے)۔

ٹیکنالوجی، خاص طور پر مصنوعی ذہانت، نے عالمی سیاست اور معیشت میں نئی رفتار شامل کر دی ہے۔ AI کی تیزی سے وسعت کار نے روزگار کے ماڈل، دفاعی حکمتِ عملی، اور معلوماتی جغرافیہ کو تبدیل کر دیا ساتھ ہی یہ سوال بھی بڑھ گیا کہ مضبوط ریگولیشن، اخلاقی حوالہ اور بین الاقوامی ضوابط کس طرح ترتیب پائیں۔ ترقی یافتہ ممالک اور تکنیکی طاقتیں اس میدان میں اپنی حکمتِ عملی مرتب کر رہی ہیں، مگر ایک عالمی ہم آہنگی کی کمی خطرات کو بڑھاتی ہے چاہے وہ بیگناہ شہری رازداری کا معاملہ ہو یا جینیاتی انجینئرنگ کے اخلاقی پہلو۔

حالیہ تنازعات اور اقتصادی اشارے یہ دکھاتے ہیں کہ ‘رفتارِ عالم’ میں استحکام کا حصول عارضی نہیں بلکہ مسلسل محنت اور مشترکہ حکمتِ عملی کا متقاضی ہے۔ بین الاقوامی ادارے (جی-20، اقوامِ متحدہ، IMF وغیرہ) نے واضح کیا ہے کہ ملکوں کو مل کر توانائی سیکورٹی، خوراک کی فراہمی، اور معاشی استحکام کے لیے مربوط اقدامات کرنے ہوں گے ورنہ علاقائی جھڑپیں عالمی منڈیوں اور انسانی حالات پر منفی طویل المدتی اثر ڈال سکتی ہیں۔

ہمیں کیا سیکھنا چاہیے؟ پہلی بات یہ کہ جغرافیائی حدود کے اندر رہ کر مسائل حل نہیں ہوتے، ان کا اثر سرحد پار ہوتا ہے توانائی کی بندش سے یورپی فیکٹریاں متاثر ہوتی ہیں، غزہ میں امداد کی ناکامی سلامتی بحران بڑھاتی ہے، اور عالمی معیشت کے جھٹکے روزمرہ زندگی کو مہنگا کردیتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ پالیسی سازوں کو مختصر المدت سیاسی مفادات کے بجائے طویل البنیاد حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے: توانائی متنوع کرنا، فوجی کشیدگی کم کرنے کے لیے سفارتکاری کو فعال رکھنا، اور تکنیکی ترقی کے لیے اخلاقی و قانونی ڈھانچے تیار کرنا۔

آخر میں، رفتارِ عالم اگرچہ تیز اور پراگندہ نظر آتی ہے، مگر اس کا حل تہہ بہ تہہ اور مشترکہ کوششوں میں مضمر ہے۔ انسانی بقا، اقتصادی استحکام اور ماحولیاتی تحفظ کے تقاضے اس وقت تک پورے نہیں ہو سکتے جب تک عالمی شراکت داری، شفافیت اور طویل المدتی منصوبہ بندی کو اولین ترجیح نہ دی جائے یہی وہ راستہ ہے جو اکتوبر 2025ء کے اس متحرک منظر سے نکل کر پائیدار امن و خوشحالی تک پہنچا سکتا ہے

Author

اپنا تبصرہ لکھیں