غزہ میں امن معاہدہ طے پا گیا اور اس پر عمل درآمد بھی شروع کر دیا گیا ہے لیکن اس دو سالہ جنگ کے دو معاملات، دو پہلو ایسے ہیں جن پر توجہ بار بار مبذول ہو رہی ہے۔ ایک ایشو کا تعلق اس سارے قضیے کے آغاز سے دوسرے کا انجام سے ہے۔ پہلے انجام والے پہلو کا احاطہ کر لیتے ہیں، آغاز کا ذکر بعد میں کر لیں گے۔
مصر کے شہر شرم الشیخ میں غزہ امن معاہدے کے پہلے مرحلے پر اتفاق رائے اور دستخط ہوئے۔ معاہدے کے پہلے مرحلے کے بہت سے اقدامات کیے جا چکے ہیں اور دوسرے مرحلے پر اتفاق رائے کے لیے بات جیت کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ اگرچہ بہت سے سوالات کے جواب تلاش کرنا ابھی باقی ہے جیسے کیا حماس خود کوغیر مسلح کرنے کے لیے تیار ہو جائے گی؟ اور کیا صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کے تمام مراحل پورے ہونے پر فلسطین کی پائیدار، آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کی راہ ہموار ملے گی؟ حماس نے اس سے قبل ہتھیار ترک کرنے سے انکار کیا اور کہا تھا کہ ایسا صرف اس وقت ہو گا جب ایک فلسطینی ریاست قائم ہو جائے گی۔ تو کیا غزہ امن معاہدہ ایک الگ اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر منتج ہونے جا رہا ہے؟ بہرحال اُمید ہے کہ جوں جوں دن گزریں گے اور معاملات آگے بڑھیں گے تو صورتحال واضح ہو جائے گی۔
فلسطین بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی کوششوں میں پاکستان کے کردار کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں غزہ میں جنگ بندی اور فلسطینیوں کی نشل کشی روکنے پر زور دیا جاتا رہا، حتیٰ کہ ٹرمپ نے جب غزہ میں قیام امن کے سلسلے میں 20 نکاتی فارمولا پیش کیا تو اس پر بھی اتفاق کر لیا گیا جس کی وجہ وزیر اعظم شہباز شریف نے چار روز قبل شرم الشیخ میں معاہدے پر دستخط کے اگلے روز بیان کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی اولین ترجیح غزہ پر مسلط کی گئی نسل کشی کو فوری روکنا تھا، چنانچہ دیگر برادر اقوام کے ساتھ مل کر اس ترجیح کو تسلسل کے ساتھ بیان کیا گیا اور تقویت دی گئی۔ وزیر اعظم اس کوشش میں تو کامیاب رہے، کیا غزہ امن عمل کے دوسرے مراحل بھی خوش اسلوبی سے مکمل کیے جا سکیں گے؟
اگر یہ کہا جائے کہ گزشتہ چند مہینوں میں پورے دنیا میں پاکستان کا ڈنکا بجتا رہا تو بے جا نہ ہو گا۔ مئی میں پاکستان نے اپنے سے کئی گنا بڑے حریف بھارت کو جنگی معرکے میں ایسی شکست دی جس کے زخم غنیم اب تک چاٹ رہا ہے اور اسے کسی کل چین نہیں آ رہا۔ پاکستان کی اس کامیابی کی پوری دنیا معترف نظر آ تی ہے۔ اپنی تشفیئ قلب کے لیے وہ کبھی ایک واویلا کرتا ہے اور کبھی دوسرا۔ جون میں اس کے بعد پاکستان نے اسرائیل ایران جنگ بند کرانے میں سرگرم سفارتی کردار ادا کیا۔ 10 ستمبر کو اسرائیل کے قطر پر حملے نے پوری عرب دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ یہ حملہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کیونکہ قطر میں امریکہ کی ایئربیسز موجود ہیں اور قطر اور امریکہ کے مابین دفاعی معاہدہ بھی موجود ہے۔ پاکستان نے اس بحران کے حل میں بھی سرگرم کردار ادا کیا۔ اس حملے کے بعد ہی پاکستان اور سعودی عرب نے ایک دوسرے کو تحفظ فراہم کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے تو بہت سے دوسرے مسلم ممالک بھی اس معاہدے کا حصے بننے پر تیار نظر آئے۔ یوں 2025ء کے سال کو پاکستان کی سَربلندی کا سال قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔
اب آتے ہیں غزہ کی جنگ کے آغاز کی طرف کہ 7 اکتوبر 2023ء کو حماس کو اچانک کیا سوجھی کہ اس نے اس وقت اسرائیل پر حملہ کر دیا جب لوگ ابھی اُٹھے ہی تھے اور ناشتے وغیرہ میں مصروف تھے یا دفاتر جانے کی تیاریوں میں تھے۔ کیا اس حملے سے پہلے اس کے نتائج و عواقب پر پوری طرح غور کر لیا گیا تھا؟ اس حملے کی وجہ سے شروع ہونے والی جنگ کے نتیجے میں غزہ کے عوام کس عذاب سے دوچار ہوں گے، کیا اس کا ادراک کیا گیا تھا؟ اگر تیاری پوری نہیں تھی تو اگلا قدم سوچ سمجھ کر اُٹھایا جانا چاہے تھا۔
یہ دور اہلِ غزہ پر کتنا بھاری گزرا اس کا اندازہ غزہ کے حکومتی میڈیا آفس کی جاری کردہ 2 سالہ اسرائیلی جنگ کی یومیہ تباہ کاریوں کی تفصیلات پر ایک نظر ڈال لینے سے بخوبی ہو جاتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ میں روزانہ کی بنیاد پر اوسطا درج ذیل ہولناک اعداد و شمار سامنے آئے۔ روزانہ 18 طلباء و طالبات اور ایک استاد شہید ہوئے۔ روزانہ 367 رہائشی مکانات مکمل طور پر تباہ کیے گئے۔ ہر روز ایک سے زائد مساجد منہدم کی گئیں۔
روزانہ 394 خاندان بے گھر ہوئے۔ ہر روز ایک مرکزی پانی کا کنواں تباہ کیا گیا۔ روزانہ 7 کلومیٹر بجلی کی ترسیلی لائنیں تباہ کی گئیں۔ روزانہ 959 میٹر پانی کی سپلائی نیٹ ورک کو نقصان پہنچایا گیا۔ روزانہ 959 میٹر سیوریج نیٹ ورک تباہ کیا گیا۔ روزانہ 4000 میٹر سڑکیں بمباری سے ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔ ہر تین دن بعد ایک پناہ گزین مرکز یا عارضی شیلٹر کو نشانہ بنایا گیا۔ ایک اور میڈیا رپورٹ کے مطابق غزہ کی پٹی میں شہید ہونے والے صحافیوں کی تعداد بڑھ کر 255 تک جا پہنچی ہے۔ اس دو سالہ جنگ کے دوران 67000 سے زیادہ فلسطینی شہید ہو گئے۔ جو لوگ اسرائیلی گولہ باری کے نتیجے میں ہونے والی عماراتی انہدام کے دوران ملبے کے نیچے دَب کر شہید ہوئے وہ اس کے علاوہ ہیں اور ان کی اصل تعداد کا پتا ملبہ ہٹائے جانے پر ہی چلے گا۔ شہید ہونے والوں میں کم اَز کم 20000 بچے بھی شامل ہیں۔ شہادتوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق غزہ میں ہر 33 افراد میں سے ایک مارا جا چکا ہے۔
اس دوران غزہ میں ہر 14 میں سے ایک فلسطینی زخمی ہوا۔ زخمیوں کی کُل تعداد 169000 بتائی جاتی ہے۔ ان میں سے سینکڑوں ایسے ہیں جو زندگی بھر کے لیے اپاہج ہو چکے ہیں۔ غزہ میں 3000 سے 4000 بچے ایسے ہیں جو ایک بازو یا دونوں بازوؤں سے محروم ہو چکے ہیں۔ اس جنگ کے دوران دو برسوں میں 1722 ہیلتھ ورکرز زندگیوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ تباہ ہونے والے ہسپتالوں اور دوسری طبی عمارات کی تعداد 125 بتائی جاتی ہے۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف فلسطینیوں کی جاری نسل کشی کی شدت ظاہر کرتے ہیں بلکہ انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔
کاش!یہ جنگ شروع کرنے سے پہلے اس کے انجام پر تو ایک نظر ڈال لی جاتی۔