رشتے کچے دھاگوں کی مانند ہوتے ہیں، جنہیں محبت، برداشت اور خلوص کی گرہوں سے باندھا جاتا ہے۔ شادی ان رشتوں میں سب سے مقدس اور پائیدار رشتہ تصور کی جاتی ہے، جو نہ صرف دو افراد، بلکہ دو خاندانوں کو جوڑتی ہے، مگر افسوس! آج یہ بندھن پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے ٹوٹ رہا ہے۔ طلاق، جو کبھی انتہائی مجبوری کی حالت میں کی جانے والی آخری کوشش سمجھی جاتی تھی، اب معمول بن چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سی وجوہات ہیں، جنہوں نے معاشرے میں طلاق کے رجحان کو خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے؟
طلاق کی سب سے بڑی وجہ عدم برداشت ہے، جو تقریباً ہر کیس میں کسی نہ کسی صورت میں نظر آتی ہے ۔ جب شوہر اور بیوی ایک دوسرے کی بات سننے، سمجھنے اور برداشت کرنے کا حوصلہ کھو بیٹھتے ہیں، تو رشتہ کمزور ہونے لگتا ہے۔ معمولی باتوں پر جھگڑے شدت اختیار کر جاتے ہیں۔ آج کا انسان صبر سے عاری اور خود کو برتر سمجھنے والے رویے میں مبتلا ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ، معاشی مسائل بھی طلاق کی ایک بہت بڑی وجہ ہیں۔ بےروزگاری، مہنگائی، محدود آمدنی اور ضروریاتِ زندگی کا بڑھتا ہوا دباؤ رشتوں میں تلخی پیدا کرتا ہے۔ جب ایک گھر میں ضرورتیں پوری نہ ہوں، تو محبت کی جگہ شکایتیں لے لیتی ہیں۔
یہ بھی ایک اہم حقیقت ہے کہ خاندانی مداخلت اکثر اوقات دو افراد کے درمیان چلنے والے رشتے کو برباد کر دیتی ہے۔ ساس، بہو، نند، دیور یا والدین کی بے جا مداخلت میاں بیوی کے تعلق کو مجروح کرتی ہے۔ کبھی شوہر کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ والدین کا ہر حکم بیوی پر نافذ کرے اور کبھی بیوی کو اس بات پر اکسانے والے مشورے دیے جاتے ہیں کہ وہ خود کو کسی سے کم نہ سمجھے۔ یوں دو افراد کے ذاتی تعلقات پر کئی لوگ اثر انداز ہوتے ہیں اور نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی نے بھی رشتوں کو متاثر کیا ہے۔ ایک دوسرے کو وقت نہ دینا اورہر وقت موبائل میں الجھے رہنا اس نئے دور کی وہ پیچیدگیاں ہیں، جنہوں نے کئی گھروں کو اجاڑ دیا ہے۔
دینی تعلیمات سے دوری اس تمام بگاڑ کی جڑ ہے۔ جب شوہر اور بیوی اس رشتے کو دنیاوی سمجھ کر نبھاتے ہیں اور اسے عبادت کا درجہ نہیں دیتے، تو اس میں محبت اور قربانی باقی نہیں رہتی۔ اسلام نے نہ صرف مرد کو قوام بنایا، بلکہ عورت کو عزت و مقام بھی دیا، مگر جب یہ توازن ختم ہو جائے، تو رشتے بےوقعت ہو جاتے ہیں۔ میں آخر میں یہ کہوں گا کہ نکاح ایک مضبوط معاہدہ ہے، مگر اس کی بنیاد دین پر ہو تو ہی یہ قائم رہتا ہے۔ آج ہمیں صرف طلاق کے اسباب جاننے کی نہیں، بلکہ ان کے حل پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ برداشت، خلوص، دینی شعور اور خاندانی تربیت کے بغیر نہ گھر بس سکتا ہے، نہ نسلیں سنور سکتی ہیں۔