قطر میں فلسطینی مزاحتمی تنظیم کےرہنماؤں پر حملہ اسرائیل کو مہنگا پڑ سکتا ہے:عسکری اور قانونی ماہرین

اسرائیلی فوج کی جانب سے دوحہ میں حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنانے اور دس سے زائد بھاری ہتھیاروں سے ان کے مراکز پر حملے کے بعد کئی اہم سوالات جنم لے رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اسرائیل نے ایسی کارروائی کیوں کی؟ اس کے مذاکراتِ جنگ بندی پر کیا اثرات ہوں گے؟ اور وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو اس سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ ساتھ ہی بین الاقوامی قانون کے مطابق ایک خودمختار ملک پر حملے کے مضمرات کیا ہوسکتے ہیں؟

مصری عسکری امور کے ماہر اور کالج آف کمانڈ اینڈ اسٹاف کے لیکچرار لیفٹیننٹ جنرل اسامہ کبیر نے الحدث ڈاٹ نیٹ سے گفتگو میں کہا کہ یہی نیتن یاھو کا اصل مقصد ہے۔ ان کے مطابق نیتن یاھو اپنے قیدی فوجیوں کی پروا کرتے ہیں اور نہ ان کے خاندانوں کی۔ وہ چاہتے ہیں کہ قیدیوں کو حماس کے ہاتھوں ہی ختم کر دیا جائے تاکہ جنگ جاری رہے، کیونکہ جنگ کا خاتمہ ان کی سیاسی زندگی کے انجام، حکومت کے ٹوٹنے اور جیل کی راہ ہموار کرے گا۔ اسی لیے وہ ہر قیمت پر جنگ کو دہکائے رکھنا چاہتے ہیں۔

ین الاقوامی قانون کے ماہر ڈاکٹر محمد محمود مہرن جو امریکہ اور یورپ کی بین الاقوامی قانون کی تنظیموں کے رکن ہیں نے کہا ہے کہ اسرائیلی حملہ قطر کی علاقائی خودمختاری پر کھلا وار ہے، جو اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ عمل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 3314 کے تحت “جارحیت” کے زمرے میں آتا ہے، جو کسی خودمختار ریاست کے خلاف طاقت کے استعمال یا اس کی دھمکی کو سختی سے ممنوع قرار دیتا ہے۔

ڈاکٹر مہرن کے مطابق ایسی کارروائی پر اسرائیل کے خلاف مختلف سطح کی سزائیں ممکن ہیں۔ سب سے پہلے عالمی سطح پر مذمت اور سفارتی تنہائی، پھر وسیع اقتصادی پابندیاں اور آخرکار ذمہ دار اسرائیلی حکام کو عالمی فوجداری عدالت میں “جارحیت کے جرم” کے تحت پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ متاثرہ ریاست کو نقصان کی تلافی کا حق بھی حاصل ہے اور وہ انفرادی یا اجتماعی دفاع کے اصول کے تحت جواب دینے کا حق رکھتی ہے۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں