ایران اسرائیل بارہ روزہ جنگ بظاہر اپنےاختتام کو پہنچی، سیز فائر کا اعلان ہوگیا ہے،اگرچہ ابتدائی گھنٹوں میں فریقین ایک دوسرے پر خلاف ورزی کا الزام لگاتے رہیں گے، مگر چونکہ یہ سیز فائر دونوں فریقوں کو سوٹ کرتا ہے، اس لئے امکانات ہیں کہ کچھ عرصے کے لئے معاملات پرسکون ہوجائیں گے۔ یہ اور بات کہ مڈل ایسٹ کی سرزمین کچھ ایسی بدنصیب اور لہو کی پیاسی ہے کہ یہاں مکمل امن شائد ممکن ہی نہیں۔ ہرکچھ عرصے یا چند سال کے بعد کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے۔
اس جنگ کے براہ راست فریق تو دو ہی ہیں، اسرائیل اور ایران۔ تیسرا فریق چلو امریکہ کو سمجھ لیں کہ اس نے آخری مرحلے میں ایران پر بمباری کر کے جنگ میں براہ راست شرکت کر لی تھی۔ تاہم اس جنگ اور سیز فائر کےاثرات قریبی ممالک پر بھی پڑیں گے، انڈیا بھی اس سے متاثر ہوگا اور روس، چین جیسی سپرپاورز بھی ۔ باری باری سب کا مختصر جائزہ لیتے ہیں کہ کس نے کیا کھویا، کیا پایا؟
ایران پر جنگ تھوپی گئی تھی، اس نے پہل نہیں کی تھی بلکہ جنگ سے بچنے کی اپنی سی آبرومندانہ کوشش بھی کی۔ یہ البتہ واضح ہوچکا کہ اسرائیل ہر حال میں ایران کی قوت تباہ کرنا چاہتا تھا بلکہ اس کی خواہش تھی کہ ایران میں رجیم چینج ہوجائے یعنی اسلامی حکومت کےبجائے سابق شاہ ایران کا بیٹا یا کوئی اور مغرب نواز کردار مسلط ہوجائے ۔
ایران کو جنگ میں بے پناہ نقصان اٹھانا پڑا۔مالی اور جانی دونوں ۔ ان کے اہم عسکری کمانڈر شہید ہوئے، ایک طرح سے پوری ملٹری لیڈرشپ چلی گئی۔ سترہ اہم نیوکلیئر سائنس دان بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ نیوکلیئر تنصیبات تباہ ہوئیں، ایرانی انفراسٹرکچر کو بھی شدید نقصان پہنچا۔
ایران کو سب سے بڑا دھچکا یہ لگا کہ ان کےداخلی سسٹم میں کمزوریاں ایکسپوز ہوئیں، خاص کر نیشنل سکیورٹی کے حوالے سے بڑے خلا نظر آئے۔ اسرائیل نے تہران میں اتنا بڑا نیٹ ورک بنا لیا۔ بے شمار مخبر اور ایجنٹ بنا لئے اور ایرانی انٹیلی جنس، پاسداران انقلاب کو اس کی کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ حتیٰ کہ تہران کے نواح میں ڈرون فیکٹری تک بنائی گئی تھی۔ لگتا ہے کہ ایران کے سسٹم کے اندر سے کئی لوگ اسرائیل کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ اسی وجہ سے جنگ کے پہلے دن اسرائیل نے ایران پر قیامت ڈھا دی تھی۔
ایک اور بڑی کمزوری یہ نظر آئی کہ ایرانی ائیرڈیفنس نہایت کمزور اور نہ ہونے کے برابر تھا۔ ایرانی فضائیہ نہایت تھکی ہوئی اور کمزور تھی، اینٹی میزائل سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے اسرائیل کو خوفناک حد تک فضائی برتری حاصل رہی۔ ایران اگر روس سے ایس چار سو اینٹی میزائل سسٹم لے رکھتا تو کچھ نہ کچھ مزاحمت ہوجاتی۔
ایران نے دو تین حوالوں سے البتہ کمال کر دکھایا۔ جو پہلے دن ان کے ساتھ ہوا تھا، اس کے بعد کسی بھی ملک کے لئے کم بیک کرنا آسان نہیں تھا۔ ایران نے یہ کر دکھایا، اگلے ہی روز نئے جوش وجذبے سے وہ اسرائیل پر حملہ آور ہوا۔ ایرانی قوم پرستی مشہور ہے۔ اس جنگ میں اس کا شاندار مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ چند اسرائیلی ایجنٹوں اور غداروں کے سوا پوری قوم متحد رہی۔ ایرانی رجیم کے مخالف بھی اسرائیل کے خلاف کھڑے ہوئے اور ڈٹے رہے۔ بے پناہ نقصان کے باوجود ایران نے بڑی جرات اور دلیری کے ساتھ استقامت کا مظاہرہ بھی کیا۔ ایرانی لیڈرشپ نے ثابت کیا کہ ان کے اعصاب مضبوط ہیں اور ان میں حوصلے کی کمی نہیں۔ ایرانی میزائل پروگرام بہت عمدہ ثابت ہوا۔ ایرانی میزائلوں نے حیران کن کام کر دکھایا۔ اسرائیل کے چار پانچ سطحوں پر مشتمل اینٹی میزائل سسٹمز سے گزر کر تل ابیب اور دیگر شہروں میں تباہی مچائی۔ ایران کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے انہونی کو ہونی کر دکھایا۔
ایران کو بہت نقصانات اٹھانے پڑے، مگر وہ چونکہ شکست فاش سے بچ گئے ، اس لئے ایک لحاظ سے وہ اسے اپنی فتح قرار دے سکتے ہیں۔ ان کا نیوکلیئر پروگرام بہت متاثرہوا ہوگا، ایٹمی قوت بننے کا خواب چند سال کے لئے تاخیر کا شکار ہوگیا۔ ایک ایڈوانٹیج یہ ملا کہ رجیم تبدیل نہیں ہوسکی اور اسرائیلی ایجنسی موساد نے کئی سال لگا کر جو اینٹی ایران نیٹ ورک تہران اور دیگر شہروں میں بنایا تھا وہ سب ایکسپوز ہوگیا۔ ایرانیوں کو ایک نئی لائف لائن ملی ہے، امید ہے وہ اپنی غلطیاں سدھاریں گے۔ ائیر ڈیفنس بہتر کریں گے، فضائیہ پر بھی توجہ دیں گے اور میزائل پروگرام پہلے جیسا تگڑا بنائیں گے۔
اسرائیل اس جنگ میں ایک طرح سے پہلے دن سے فاتح تھا۔ وہ ایران سے کئی گنا زیادہ بڑی قوت اور جدیدترین ٹیکنالوجی سے حملہ آور ہوا۔ امریکہ اور یورپ (فرانس، برطانیہ، جرمنی وغیرہ )کی پوری قوت اس کے ساتھ تھی۔ حملہ اسرائیل نے خود کیا، اپنی مرضی کا وقت منتخب کر کے اور اس سے پہلے ایران میں بڑی محنت کےساتھ ایک زبردست نیٹ ورک بنایا۔ ویسا نیٹ ورک جس کے ذریعے حزب اللہ جیسی منظم اور مضبوط جماعت تباہ کر دی گئی ۔ ان تمام ایڈوانٹیجز کے ہوتے ہوئے بھی اسرائیل ایران کو شکست نہ دے سکا۔ یہ اسرائیل کی ناکامی سمجھی جائے گی۔
پہلے دن سے ایرانی فضائیہ، ائیر ڈیفنس ختم ہوگیا تھا، اسرائیلی طیارے تہران اور دیگر شہروں میں دندناتے پھرتے تھے، ہر جگہ بمباری کر دیتے تھے، اس کے باوجود اسرائیل ایران کی قوت ختم نہ کر سکا، اس کے میزائل لانچرز تک تباہ نہ ہوئے۔ اس جنگ نے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے اور مسلم ممالک سے بے پناہ طاقتور ہونے کا رعب ، دبدبہ اور بھرم توڑ دیا۔ ایرانی میزائلوں نے اسرائیلی اینٹی میزائل ڈیفنس سسٹم کو کئی مواقعوں پر ناکام بنایا ۔ ایرانی میزائل تل ابیب، حیفہ اور دیگر اسرائیلی شہروں میں تباہی مچاتے رہے۔ اسرائیل کی اہم دفاعی عسکری تنصیبات نشانہ بنائی گئیں۔ اسرائیلی عوام کے حواس باختہ بھاگنے ، دوڑنے اور تباہی کی فوٹیجز مسلمان دنیا نے پہلی بار دیکھی تھیں۔ بہت سوں کے نزدیک یہ کرشمہ تخلیق ہوا۔ اسرائیلی حکومت اس پر اتنی پریشان ہوئی کہ شدید ترین سنسر نافذ کر دیا گیا بلکہ پارلیمنٹ سے خصوصی قانون منظور کیا گیا کہ جس کسی نے سوشل میڈیا پر تباہی کی فوٹیج اپ لوڈ کی اسے قید کی سزا ملے گی۔ یہ اسرائیل کی شکست خوردگی اور کمزوری تھی۔
اسرائیل کے دو اہم ہدف تھے۔ ایران کی نیوکلیئر صلاحیت کو تباہ کرنا اور ایرانی رجیم تبدیل کرنا۔ رجیم تبدیل کرنے میں اسرائیل بری طرح ناکام ہوا۔ یہ کام پانچ فیصد بھی نہ ہوسکا۔ ایرانی عسکری لیڈرشپ میں جو اہم لوگ ہٹ ہوئے، ان کی جگہ نئے لوگوں نے فوری لے لی۔ قیادت کا خلا پیدا ہی نہ ہوسکا۔
البتہ ایران کے نیوکلیئر اڈوں کو شدید نقصان پہنچا۔ نیوکلیئر سائنس دان بھی نشانہ بنے اور قوی امکانات ہیں کہ ایران کی نیوکلیئر صلاحیت بری طرح ڈیمیج ہوئی۔ اس اعتبار سے ا سرائیل کا یہ ہدف تو نصف سے زیادہ حاصل ہوا ، تاہم مجموعی طور پر یہ جنگ اسرائیل کو مہنگی پڑی۔ اس کی ہلاکتیں بھی ہوئیں اور ایرانی میزائلوں سے انہیں پریشانی اور خاصی شرمندگی بھی اٹھانا پڑی۔ آخر میں نوبت یہ آ گئی تھی کہ اسرائیلی واضح طور پر تھکے ہوئے لگ رہے تھے، ان کی شدید خواہش تھی کہ امریکہ آ کر انہیں بچائے اور باقی کام نمٹائے۔ مڈل ایسٹ میں اسرائیل کی ایسی کنڈیشن طویل عرصے کے بعد دیکھی گئی، کوئی باون سال بعد۔
امریکہ نئے جنگ کے آخری فیز میں انٹری کی، تین ایرانی نیوکلیئر تنصیبات کو شدید بمباری کا نشانہ بنایا اور پھر جنگ سے باہر نکل گیا، سیز فائر کرانے میں بھی کامیاب رہا۔ صدر ٹرمپ مڈل ایسٹ میں کوئی نئی جنگ نہیں چاہتے تھے، وہ ایران کے ساتھ جنگ میں بھی انوالو ہونے سے گریز کر رہے تھے۔ ان کی حکمت عملی کامیاب رہی اور امریکہ جنگ سے باہر ہی رہا۔ ٹرمپ کا کردار بھی دلچسپ رہا، اچانک ہی وہ ایک بار پھر پیس میکر بن گئے اور لگتا ہے کہ اس سال نوبیل انعام لے کر ہی چھوڑیں گے۔
امریکی ٹیکنالوجی اور اسلحے کی برتری ایک بار پھر ثابت ہوئی۔ یہ بھی اندازہ ہوا کہ اگر امریکہ کسی جنگ میں انوالو ہوگا تو چین یا روس اسے چیلنج کرنے اور سامنے آ کر مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہرگز نہیں۔ مڈل ایسٹ میں امریکہ کی گرفت بھی مضبوط ہوگئی ہے۔ عرب ممالک اس کے ساتھ پہلے ہی تھے، شام میں بھی حکومت بدل گئی، لبنان مینیج ہوگیاجبکہ ایران بھی اب زخمی ہے، ممکن ہے یمن کے حوثیوں کو بھی مزید کمزور کیا جائے۔
ایک تلخ اور سفاک حقیقت یہ بھی سامنے آئی کہ مسلم دنیا اور خاص کر چھوٹے ممالک کو امریکہ کے سامنے آنے سے گریز کرنا چاہیے۔ امریکہ کی سائیڈ میں رہیں یا پھر براہ راست ٹکرانے سے بچیں اورمعاملات کو طول کھینچ کر وقت لیں۔ امریکی اسلحے اور ٹیکنالوجی سے سردست شائد کسی کا بھی مقابلہ کرنا ممکن نہیں۔
چین اور روس دونوں سپر پاورز کا کردار تو نبھانا چاہتے ہیں، مگر ان میں حوصلے کی کمی ہے یا جرات کی ۔ انہوں نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ ان پر تکیہ نہیں کیا جا سکتا۔ براہ راست ٹکرائو میں یہ ساتھ کھڑے نہیں ہو سکتے، البتہ خفیہ مدد، وہ بھی جنگ سے پہلے دے سکتے ہیں۔ چین خاص کر اپنے تجارتی کردار کو بہت اہمیت دیتا ہے اور اس پر انحصآر کرنا مشکل ہے۔
پاکستان کا کردار مثبت اور اہم رہا۔ پاکستانی آرمی چیف نے عین جنگ کےدنوں میں امریکہ کا دورہ کیا، صدر ٹرمپ سے ان کی خاصی تفصیلی ملاقات ہوئی۔ پاکستان میں آرمی مخالف سیاسی حلقے سوشل میڈیا پر یہ شور مچاتے رہے کہ فیلڈ مارشل کچھ نہ کچھ دینے کی حامی بھر کر آئے ہیں اور شائد یہ امریکہ کو اڈے دے دیں وغیرہ وغیرہ۔ ثابت ہوا کہ یہ سب غلط تھا۔ آرمی چیف نے لگتا ہے صدر ٹرمپ کو جنگ میں نہ الجھنے کا مشورہ دیا جو کہ مان لیا گیا۔
صدر ٹرمپ کو نوبیل انعام کے لئے نامزد کرنا ایک دلچسپ موو تھی، پہلے تو یہ پرکشش لگی، پھر امریکہ کی ایران پر بمباری نے اسے دھندلا دیا اور یوں لگا کہ یہ غلطی تھی۔ صرف ایک دن بعد ہی جب جنگ بندی ہوگئی اور صدر ٹرمپ پیس میکر بن کر ابھرے تو لگتا ہے ہماری اسٹیبلشمنٹ کا بھی بھرم رہ گیا اور نوبیل انعام کی نامزدگی اب اتنی غلط اور بے تکی نہیں لگ رہی۔
پاکستان کے کردار کو دو بار ایرانی صدر نے سراہا، ایرانی پارلیمنٹ میں پاکستان کے حق میں تقاریر ہوئیں، پاسداران انقلاب کی قیادت نے بھی پاکستان کی تعریف کی۔ ایران میں یہ کم ہی ہوتا رہا ہے۔ پاکستان کا امیج لگتا ہے ایران میں بہتر ہوا ہے۔ امکانات ہیں کہ مستقبل میں پاکستان ایران تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔ خاص کر بلوچستان میں جاری شورش میں کمی آئے گی اور بی ایل اے کے دہشت گردوں کو اب نئے ٹھکانے ڈھونڈنے پڑیں گے۔ ایران میں اب انہیں کوئی جگہ نہیں مل سکتی۔
انڈیا اس سب کچھ میں باقاعدہ شکست خوردہ (لوزر)نظر آیا۔ انڈیا نے طویل عرصے سے خاصی محنت کے بعد ایران میں اپنی جگہ بنائی تھی، ایران کے ساتھ انڈین تجارتی تعلقات بھی تھے اور ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کو ڈویلپ بھی کیا۔ انڈیا ایران کے راستے افغان طالبان کے ساتھ بھی تجارتی اور دیگر تعلقات ڈویلپ کر رہا تھا۔ اس جنگ میں انڈیا نے کھل کر اسرائیل کا ساتھ دیا۔ ایرانیوں کو اس پر دھچکا تو پہنچا ہوگامگر ان کی اپنی غلطی تھی کہ انہیں اس کا پہلے ہی اندازہ لگا لینا چاہیے تھا۔
یہ خبریں بھی آئیں کہ اسرائیلی نیٹ ورک کو ایران میں پھیلانے میں بھارتی بزنس مینوں کا بھی کردار رہا۔ لگ یوں رہا ہے کہ انڈیا کی اب ایران میں پہلے جیسی پوزیشن اور اثرورسوخ نہیں رہے گا۔ انڈیا اس خطے سے آوٹ ہو رہا ہے۔ بنگلہ دیش اس کے مخالف ہے۔ ایران بھی اب ہوگیا۔ سری لنکا، نیپال وغیرہ بھی ناراض ہیں جبکہ پاکستان سے اس نے جنگ میں باقاعدہ شکست کھائی۔ انڈیا کے برے دن چل رہے ہیں۔
عرب ممالک نے سفارتی طو رپر ایران کا ساتھ دیا تھا۔ سعودی عرب اوردیگر ممالک نے اسرائیلی حملوں کی مذمت کی ، اگرچہ امریکہ کے ساتھ ان عرب ممالک کے گہرے تعلقات میں معمولی سی کمی بھی نہیں آئی۔ ایران نے جنگ کے آخری مرحلے میں دوہا، قطر میں امریکی اڈے پر میزائل داغ کر عرب ممالک کو شدید دھچکے سے دوچار کیا۔ انہیں پہلی بار اندازہ ہوا کہ ایرانی میزائلوں کا وہ خود بھی نشانہ بن سکتے ہیں۔
ایران نے امریکی اڈے پر ہلکے میزائل پھینکے جو انٹرسیپٹ ہوگئے، تاہم ایران کے پاس ہائپر سونک میزائل موجود ہیں جنہیں اسرائیلی ائیر ڈیفنس بھی نہ روک سکا۔ ایران نے ایک طرح سے عرب ممالک کو بھی چتاونی دے دی ہے کہ بھیا سنبھل کر، ورنہ اگلا نشانہ تم بھی بن سکتے ہو۔ میرا خیال ہے کہ عرب ممالک کو امریکہ سے تھاڈ یا کوئی اور اچھا سا اینٹی میزائل ڈیفنس سسٹم خرید لینا چاہیے ۔ اگر پہلے سے ہیں تو انہیں اپ گریڈ کر لیں۔ اگلی جنگیں میزائلوں کی ہوں گی جن میں ایران کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔