امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ، وہ یکم اگست سے کینیڈا کی درآمدی مصنوعات پر 35 فیصد تک محصولات عائد کریں گے۔
یہ اعلان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکہ اور کینیڈا کے درمیان نئے تجارتی معاہدے پر پہنچنے کی ڈیڈ لائن میں صرف چند دن باقی رہ گئے ہیں۔
ٹرمپ کی جانب سے یہ اعلان اُن کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ٹروتھ سوشل” پر ایک خط کی صورت میں کیا گیا، جس میں نہ صرف کینیڈا، بلکہ جاپان، جنوبی کوریا، سری لنکا اور دیگر تجارتی شراکت داروں کو بھی محصولات عائد کرنے کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔
خط میں بیشتر ممالک کے لیے 15 یا 20 فیصد، جبکہ کینیڈا کے لیے 35 فیصد تک محصولات لگانے کا اعلان شامل ہے۔
کینیڈا کے وزیراعظم، مارک کارنی نے ٹرمپ کے اعلان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ، ان کی حکومت ملکی کارکنوں اور کاروباری اداروں کے مفادات کا دفاع جاری رکھے گی۔
ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ، اگر کینیڈا کی کمپنیاں امریکی سرزمین پر مصنوعات بنائیں گی، تو ان پر کسی قسم کا ٹیرف لاگو نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ، نئے محصولات کا مقصد نہ صرف امریکہ میں مقامی صنعت کو تحفظ دینا ہے، بلکہ یہ کینیڈا کی جانب سے امریکی ڈیری فارمرز پر عائد محصولات، تجارتی خسارے اور مبینہ طور پر فینٹانل جیسے نشہ آور مواد کے بہاؤ کو روکنے میں ناکامی کا جواب بھی ہے۔
خط میں ٹرمپ نے کہا کہ،اگر کینیڈا ہمارے ساتھ مل کر فینٹانل کے بہاؤ کو روکنے کے لیے تعاون کرے تو ان محصولات میں نرمی پر غور کیا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ، کینیڈا، امریکہ کو اپنی تقریبا75 فیصد مصنوعات برآمد کرتا ہے، جن میں آٹوموبائل، سٹیل اور ایلومینیم نمایاں ہیں۔ امریکہ کی جانب سے ان پر بھاری محصولات عائد کیے جانے سے ان شعبوں کو براہ راست نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔
یہ ابھی واضح نہیں کہ، آیا یہ نئے محصولات کینیڈا، امریکہ اور میکسیکو کے درمیان موجودہ آزاد تجارتی معاہدے (CUSMA) کی شرائط پر بھی اثرانداز ہوں گے یا نہیں۔
ماضی میں بھی ٹرمپ انتظامیہ نے کینیڈا اور میکسیکو پر فینٹانل کی ترسیل کو روکنے میں ناکامی کا الزام عائد کرتے ہوئے سخت اقدامات کا عندیہ دیا تھا۔