27 ویں آئینی ترمیم: وفاقی کابینہ کی منظوری، مجوزہ مسودہ سینیٹ میں پیش، کون سی تجاویز شامل ہیں؟

حکومتِ پاکستان کی وفاقی کابینہ کا اجلاس دارالحکومت اسلام آباد میں منعقد ہوا جس کی صدارت وزیرِ اعظم شہباز شریف نے باکو سے ویڈیو لنک کے ذریعے کی۔ اجلاس کے دوران وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم پر تفصیلی بریفنگ دی۔ اجلاس میں ترمیمی مسودہ پیش کیا گیا جس کی کابینہ نے شق وار منظوری دے دی۔

کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ میثاقِ جمہوریت کے تحت وفاقی آئینی عدالت قائم کی جائے گی۔ ان کے مطابق پارلیمنٹ آئینی ترامیم پر بحث کے بعد ان کی منظوری کا حتمی فیصلہ کرے گی، اور یہ ترمیم آج ہی سینیٹ میں پیش کر دی گئی۔

اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ ججز کی تقرری اور تبادلے پر حالیہ دنوں میں اٹھنے والی بحث کے بعد تجویز دی گئی ہے کہ ججز کے تبادلے کا اختیار جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) کو دیا جائے۔ جن ہائی کورٹس کے درمیان جج کا تبادلہ ہوگا، ان دونوں کے چیف جسٹس صاحبان بھی اس عمل کا حصہ ہوں گے۔ آئینی عدالت کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سینیٹ انتخابات چھ سالہ مدت کے لیے ہوتے ہیں، اور ہر تین سال بعد چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب آئینی تقاضا ہے۔ اس ابہام کو ختم کرنے کے لیے تجویز دی گئی ہے کہ سینیٹ کے انتخابات پورے ملک میں ایک ہی وقت میں منعقد کیے جائیں تاکہ عمل میں تعطل نہ آئے۔

وزیر قانون نے بتایا کہ چھوٹے صوبوں کی پارلیمنٹ میں نمائندگی 11 فیصد سے بڑھا کر 13 فیصد کرنے کی تجویز بھی زیرِ غور ہے، جبکہ غیر منتخب کابینہ اراکین جیسے مشیران اور معاونینِ خصوصی کی تعداد بڑھانے کی تجویز بھی شامل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حالیہ پاک-بھارت کشیدگی سے اہم اسباق سیکھے گئے ہیں۔ جدید دور میں جنگوں کے انداز بدل چکے ہیں، لہٰذا دفاعی اداروں کے اعلیٰ عہدوں کی وضاحت کے لیے آرٹیکل 243 میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔ ان ترامیم کے تحت فیلڈ مارشل کے اعزازی عہدے کا ذکر بھی آئین میں شامل کیا گیا ہے، اور اس بات پر غور ہو رہا ہے کہ یہ عہدہ تاحیات رہنا چاہیے یا نہیں۔

اعظم نذیر تارڑ کے مطابق آئینی ترامیم دو تہائی اکثریت سے منظور ہونے کے بعد آئین کا حصہ بنیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے آرٹیکل 140-A (بلدیاتی حکومتوں کے اختیارات) سے متعلق بل پر بھی آج بحث ہوگی اور اتحادی جماعتوں کے اتفاقِ رائے سے اسے منظور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے رہنما خالد مگسی کی جانب سے بلوچستان میں انتخابی حلقوں میں اضافے کے مطالبے پر بھی قائمہ کمیٹی میں غور کیا جائے گا۔

وزیر قانون نے مزید کہا کہ بلاول بھٹو نے قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) کے حوالے سے اپنی جماعت میں اختلافِ رائے کی نشاندہی کی تھی، جس پر فیصلہ ہوا کہ فی الحال صرف وہ ترامیم ایوان میں لائی جائیں جن پر اتفاق موجود ہے۔

بعد ازاں، وزیر قانون نے 27ویں آئینی ترمیم کا بل سینیٹ میں پیش کیا۔ چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے بل کو قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا اور ہدایت دی کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے ارکان کو بھی مدعو کیا جائے تاکہ وہ تجاویز پیش کر سکیں۔

سینیٹر علی ظفر نے کیا اعتراض اٹھایا؟

تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر نے اجلاس میں اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ جب اپوزیشن لیڈر کی نشست خالی ہے تو آئینی ترمیم پر بحث مناسب نہیں۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ بل کو کمیٹی میں بھیجنے کے بجائے پورے سینیٹ کو ہی کمیٹی تصور کیا جائے تاکہ تمام ارکان بحث میں حصہ لے سکیں، کیونکہ اپوزیشن کو آج ہی بل کا مسودہ ملا ہے۔

آئین کی کتنی شقوں میں ترامیم زیرِ غور ہیں؟

وزیر قانون کے مطابق بل میں 48 شقیں شامل ہیں جو تین بنیادی اور دو ضمنی شعبوں پر مشتمل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 2006 کے چارٹر آف ڈیموکریسی میں وفاقی آئینی عدالت کے قیام پر اتفاق ہوا تھا، جو تمام صوبوں کے اعلیٰ ججوں پر مشتمل ہوگی اور صرف آئینی مقدمات کی سماعت کرے گی۔

اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ 18ویں ترمیم کے بعد ججوں کے تبادلے کے لیے رضامندی لازمی قرار دی گئی تھی، تاہم اب تجویز ہے کہ وزیراعظم کی ایڈوائس کا کردار ختم کر کے اختیار جے سی پی کو دیا جائے۔ انہوں نے واضح کیا کہ چیف جسٹس سے زیادہ سینئر جج کو ٹرانسفر نہیں کیا جائے گا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ خیبر پختونخوا میں سینیٹ انتخابات میں تاخیر جیسے معاملات کے سدباب کے لیے نئی شق شامل کی گئی ہے تاکہ چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب پر کوئی تنازع پیدا نہ ہو۔

وزیر قانون نے کہا کہ صوبائی کابینہ کا حجم 11 فیصد سے بڑھا کر 13 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ صوبائی مشیروں کی تعداد پانچ سے بڑھا کر سات کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔

آرٹیکل 243 میں ترمیم کی کون سی تجاویز شامل ہیں؟

ترمیمی مسودے کے مطابق ،آرٹیکل 243 میں ترمیم کے تحت چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ 27 نومبر 2025 کو ختم کر دیا جائے گا، اور اس کے بعد آرمی چیف کو چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ دیا جائے گا۔

وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدرِ مملکت آرمی چیف اور چیف آف ڈیفنس فورسز کو مقرر کریں گے۔ چیف آف آرمی اسٹاف، جو چیف آف ڈیفنس فورسز بھی ہوں گے، وزیراعظم کی مشاورت سے نیشنل اسٹریٹجک کمانڈ کے سربراہ مقرر کریں گے، جس کا تعلق پاک فوج سے ہوگا۔

ترمیم کے تحت حکومت کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ مسلح افواج کے سینئر افسران کو فیلڈ مارشل، مارشل آف ایئر فورس، یا ایڈمرل آف دی فلیٹ کے اعزازی خطابات دے سکے۔ فیلڈ مارشل کا رینک اور مراعات تاحیات برقرار رہیں گی۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں