فاطمہ بھٹو کی امریکہ کی نائب صدر کملا ہیرس کے غزہ پر مؤقف اور امریکی انتخابات پر تنقید

معروف مصنفہ اور انسانی حقوق کی کارکن فاطمہ بھٹو نے غزہ پر امریکی نائب صدر کملا ہیرس کے مؤقف کو ’’نسوانیت کے ساتھ غداری‘‘ قرار دیا۔ حالیہ انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ کملا  کی اس موضوع پر خاموشی، خاص طور پر ان کے اس وقت کے پرو چائس مؤقف کے تناظر میں، خواتین کی حقیقی تحفظات کو نظر انداز کرنے کی عکاس ہے۔

فاطمہ بھٹو کا کہنا تھا کہ اسرائیلی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والوں میں سے 70 فیصد خواتین اور بچے ہیں، اور یہ امریکہ کے دیے گئے ہتھیاروں اور اس کی حمایت کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’کملا ہیرس کا خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہوئے غزہ کے مظلوم لوگوں کو نظر انداز کرنا نہ صرف حیران کن ہے بلکہ افسوس ناک بھی ہے۔‘‘

فاطمہ بھٹو نے کہا کہ کملا ہیرس کی انتخابی مہم میں مشہور شخصیات کو شامل کرنے کا اقدام اس وقت کے پس منظر میں بےحسی اور ’’نفرت‘‘ کا عکاس تھا، جب غزہ میں مائیں اپنے بچوں اور شوہروں کو کھو رہی تھیں۔

انہوں نے مغرب کی طرف سے یوکرین اور غزہ کے مسئلے پر دوہرے معیار کو ’’مکمل نسل پرستی‘‘ قرار دیا اور کہا کہ یوکرینی صدر زیلنسکی کو ہیرو جبکہ فلسطینیوں کو دہشتگرد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

فاطمہ بھٹو نے کہا کہ کملا ہیرس کے بیانوں میں “زہریلی مردانگی” واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے، اور ان کے مطابق ’’یہ ضروری نہیں کہ مرد ہی زہریلی مردانگی کو فروغ دے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ امریکی معاشرے میں مسلمان طلبا کے احتجاج پر کریک ڈاؤن اور پولیس کی طرف سے برتاؤ انتہائی قابل مذمت ہے اور یہ رویہ پہلے کبھی جنوبی افریقی نسل پرستی کے خلاف احتجاج میں نہیں دیکھا گیا۔

ان کے مطابق ’’امریکہ اور مغرب مسلمان ممالک کے خلاف جنگ کو جائز سمجھتے ہیں، اور مسلمانوں کی اموات کو عام سمجھا جاتا ہے۔‘‘

فاطمہ بھٹو نے انتخابات کے نتائج پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کملا ہیرس کی انتخابی مہم بے اثر تھی، اور خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہوئے دنیا بھر کی خواتین کے ساتھ ہورہی ناانصافیوں کو نظر انداز کرنا ناقابل برداشت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کی پالیسیاں فلسطین کے خلاف جارحانہ تھیں، مگر ان کا کہنا تھا کہ دونوں انتظامیہ میں کچھ خاص فرق نہیں، ’’فرق صرف طریقے کا ہے، ایک میں خوبصورتی اور شائستگی ہے اور دوسرے میں نہیں”۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں