امریکا کی 18 ریاستوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے شہریت کے پیدائشی حق کو منسوخ کرنے کے صدارتی حکم کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کردیا۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق ڈیموکریٹس نے اس فیصلے کے خلاف مضبوط محاذ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔ امیگریشن پالیسی کی تبدیلی اور غیر قانونی تارکین وطن کی بے دخلی پر بھی شدید تنقید جاری ہے۔
بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق بھارت 18 ہزار غیر قانونی بھارتی تارکین وطن کو واپس بلانے پر آمادہ ہوگیا ہے تاکہ امریکا کے ساتھ تجارتی تنازعات سے بچا جا سکے اور تعلقات کو بہتر بنایا جا سکے۔ تاہم امریکا میں موجود بھارتی تارکین وطن کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ بتائی جاتی ہے۔
دوسری جانب ٹرمپ انتظامیہ نے 1,660 افغان شہریوں کی امریکا منتقلی کے منصوبے کو بھی معطل کر دیا ہے، جس پر انسانی حقوق کے حلقے شدید تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ اب تک دو لاکھ افغانی شہری پاکستان کے راستے امریکہ پہنچ چکے ہیں جبکہ 26000 افغان شہری ابھی تک پاکستان میں مقیم ہیں ۔ جن کے اخراجات امریکن ایمبیسی اسلام آباد برداشت کر رہی ہے ۔ دراصل یہ وہ لوگ ہیں جو اشرف غنی حکومت میں امریکہ کا ساتھ دیتے تھے ۔ ان افغان شہریوں کو معلوم تھا کہ جب طالبان برسر اقتدار آجائیں گے تو انہیں غدار سمجھ کر تختہ دار پر لٹکا دیا جائے گا یا سخت سزائیں دی جائیں گی ۔ لہذا ان لوگوں کو پاکستان کے ساتھ ایک سمجھوتے کے تحت پاکستان آنے دیا گیا ۔
جن 1600 افغان شہریوں کو امریکہ جانے سے روکا گیا ہے یہ بھی پاکستان میں ہی مقیم ہیں ۔ ویزہ لگنے کے بعد ان کے ہوائی ٹکٹس اکیس جنوری کو کنفرم تھے ۔ تاہم نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں امریکہ آنے سے روکنے کیلئے ایک صدارتی آرڈیننس جاری کر دیا ۔ لہذا ان کے ٹکٹس منسوخ کر دیئے گئے ۔ اب ان 26000 افغان شہریوں کو مستقبل خطرے میں ہے ۔ یہ لوگ افغانستان واپس جا سکتے ہیں اور نہ مزید پاکستان میں قیام کر سکتے ہیں ۔