تاریخ کے صفحات پر اگر گہری نظر دوڑائی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے انقلابات نہ تلوار سے آئے، نہ توپ و تفنگ سے، بلکہ ایک معمولی سے دکھنے والے آلے، قلم، کی نوک سے نکلے ہوئے سچ نے ایوانِ اقتدار ہلا دیے۔ یہ قلم ہی تھا جس نے غلام ذہنوں کو آزاد فکر دی، سوئی ہوئی قوموں کو جگایااور مایوسی کی راتوں میں امید کا چراغ روشن کیا۔
قلم صرف ایک لکیر کھینچنے کا ذریعہ نہیں، یہ ایک سوچ ہے، ایک نظریہ ہے، ایک انقلاب کی پہلی ضرب ہے۔ اس کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بڑے بڑے ظالم حکمران، جب کسی سچ لکھنے والے سے خائف ہوتے ہیں، تو سب سے پہلے اس کا قلم چھینتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایک قلم، لاکھوں تلواروں پر بھاری پڑ سکتا ہے۔ اگر ہم اپنے ہی خطے کی مثال لیں تو سر سید احمد خان کی تعلیمات، علامہ اقبال کا فکری پیغام، اور قائداعظم کے اصول و اقوال سب اسی قلم کی پیداوار تھے۔ وہ الفاظ جو کبھی کاغذ پر گرے، آج ایک آزاد ملک کی صورت میں دنیا کے نقشے پر جگمگا رہے ہیں۔ ان تحریروں نے وہ جذبہ پیدا کیا جو قوموں کو نہ صرف زندہ رکھتا ہے ، بلکہ انہیں عزت و وقار کی بلندیوں تک پہنچاتا ہے۔ قلم ایک ایسا چراغ ہے جو اندھیروں میں راستہ دکھاتا ہے، ایک ایسا آئینہ ہے جو معاشرے کو اس کا اصل چہرہ دکھاتا ہے، اور ایک ایسی آواز ہے جو ظلم کے سناٹے کو چیر کر سچائی کی گونج پیدا کرتی ہے۔ ایک ایماندار قلم کار معاشرے کا نبض شناس ہوتا ہے، جو درد کو محسوس کرتا ہے اور اپنے الفاظ سے دوا تلاش کرتا ہے۔
بدقسمتی سے آج کے دور میں قلم کو محض روزی کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ سچ لکھنے والا تنہا رہ جاتا ہے، اور خوشامدیوں کے الفاظ سرخیوں میں آ جاتے ہیں، مگر ایک سچے قلمکار کو نہ پذیرائی کی طلب ہوتی ہے، نہ ہی خوف کی پرواہ۔ وہ صرف حق لکھتا ہے، کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ لفظوں کی گونج دیر سے سہی، مگر لازماً سنائی دیتی ہے۔قلم کا اصل کمال تب ظاہر ہوتا ہے جب وہ علم سے جڑتا ہے، جب وہ ضمیر کی آواز بن جاتا ہے، اور جب وہ آنے والی نسلوں کی فکری تربیت کرتا ہے۔ ایک معلم کا قلم قوم کا مستقبل تراشتا ہے، ایک شاعر کا قلم جذبات جگاتا ہے، ایک صحافی کا قلم سچ کی شہادت دیتا ہے، اور ایک مصنف کا قلم تاریخ رقم کرتا ہے۔
آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے اردگرد بھی کوئی مثبت تبدیلی آئے، تو ہمیں دوبارہ قلم کو اس کا کھویا ہوا وقار دینا ہوگا۔ ہمیں اپنی نسل کو یہ سکھانا ہوگا کہ قلم صرف الفاظ کا کھیل نہیں، یہ ایک مقدس امانت ہے، ایک مشن ہے، ایک فرض ہے، کیونکہ جب قلم جاگتا ہے، تو دل بدلتے ہیں، سوچیں نکھرتی ہیں، اور پھر وہ لمحہ آتا ہے جب ایک قوم انقلاب سے ہمکنار ہوتی ہے، اور تب دنیا کہتی ہے:
“یہ انقلاب قلم کی نوک سے آیا تھا”!