الف لیلیٰ اور اس طرح کی رومانوی داستانوں میں تو آپ نے یہ پڑھا ہوگا کہ ” وہ شہزادی اِتنی خوبصورت تھی کہ گھنٹوں خود کو آئینے میں دیکھتی رہتی تھی” لیکن امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق جنوب مغربی آسٹریلیا کے شہر ڈنمارک کے ساحل کی ریت پر ایک ایسے پرندے کی موجودگی ظاہر ہوئی ہے جس کے بارے میں مقامی افراد کا کہنا ہے کہ وہ زیارہ وقت آئینے کے سامنے کھڑا رہتا تھا۔
بادشاہ پینگوئن انٹارکٹکا کے برفیلے پانیوں سے تیر کر 3500 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے آسٹریلیا پہنچی۔ امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق یہ آسٹریلیا پہنچنے والا پہلا بادشاہ پینگوئن تھا۔
انٹارکٹکا کے برفیلے پانیوں جہاں کم درجہ حرارت کی وجہ سے اِنسان نہیں رہ سکتے وہاں پر پرندوں کی ایک خوبصورت نسل پینگوئن کا راج ہے۔ بادشاہ پینگوئن ، پینگوئن پرندوں کی ایک ایسی نسل سے ہے جو خوراک کے حصول کے لیے سینکڑوں میل کا فاصلہ طے کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایک متوسط بادشاہ پینگوئن خوراک کے حصول کے لیے 1600 کلومیٹر تک کا سفر کرتا ہے۔
اے پی کے مطابق آسٹریلیا کے مقامی وائلڈ لائف کئیر گِور کیرو ل بِڈلف نے اِس بادشاہ پینگوئن کوقدیم رومی بادشاہ “آگسٹس” کے نام پر “گَس ” کا نام دیا۔
کیرول بڈلف نے گَس کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ “جب یہ مُجھے مِلا تو یہ انتہائی کمزور حالت میں تھا، مُجھے یقین نہیں تھا کہ یہ زِندہ بھی رہ پائے گا”۔
اُنہوں نے امریکی خبر رساں ادارے اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے مزید بتایا کہ ” وہ زیادہ تر وقت آئینے کے سامنے کھڑا رہتا تھا۔اور اُسے وہ بڑا سا آئینہ بے حد پسند تھا۔ یہ سماجی پرندے ہیں اور یہ ایسے ہی خوش رہتے ہیں۔”
کیرول بِڈلف کے مطابق جب گَس اُنہیں ملا تو اُس کا وزن 21.5 کلوگرام تھا۔ ایک صحت مند بادشاہ پینگوئن کا وزن 45 کلوگرام یا اُس سے زائد ہو سکتا ہے۔ تاہم کمزوری اور طویل سفر کی وجہ سے گَس کا وزن انتہائی کم رہ گیا۔
20 دِن کی دیکھ بھالی اور نگرانی کے بعد اِس پینگوئن کو کھلے سمندر میں چھوڑ دیا گیا۔
یہ آسٹریلیا آنے والا پہلا بادشاہ پینگوئن تھا
یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کی محقق بلینڈا کینل کے مطابق اِس سے پہلے آسٹریلیا میں اِتنے بڑے پینگوئن کی موجودگی رپورٹ نہیں ہوئی۔ یہ آسٹریلیا میں آنے والا پہلا بادشاہ پینگوئن تھا۔یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے مطابق اِس سے پہلے بادشاہ پینگوئن نیوزی لینڈ میں دیکھی گئی ہیں ، تاہم یہ آسٹریلیا پہنچنے والا پہلا بادشاہ پینگوئن تھا۔

حکومت نے گَس کے بارے میں بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ جنوبی نصف کرے میں گرمیوں کا موسم قریب آ رہا ہے اِس لیے اِس پینگوئن کو سمندر میں واپس چھوڑنا وقت کے لحاظ سے ضروری تھا، تاکہ وہ اپنے جسم کا درجہ حرارت متوازن رکھ سکے۔