میں گزشتہ پانچ سال سے ازبکستان کے شہر سمرقند میں مقیم ہوں ۔ دوست اکثر مجھ سے ازبکستان سے متعلق سوالات کرتے ہیں ۔ دراصل یہ دوست ازبکستان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا چاہتے ہیں ۔
بلاشبہ ازبکستان اس وقت سنٹرل ایشیا میں ایک نمایاں حیثیت کا حامل ملک ہے ۔اقتصادی اعتبار سے ازبکستان بہت تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس ترقی کے اثرات ہمیں اہم شہروں میں ہونے والی جدید تبدیلوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ ملک میں بڑی بڑی عمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں ۔ جدید تعلیمی ادارے وجود میں آ رہے ہیں ۔ چند روز قبل پاکستان سے ایک دوست نے ازبکستان کے تعلیمی نظام کے بارے میں پوچھا تھا کہ ازبکستان کا تعلیمی نظام کیسا ہے ؟ میں آج یہاں ازبکستان کے تعلیمی نظام کے حوالے سے آپ سے معلومات شیئر کر رہا ہوں تاکہ عام قاری بھی ازبکستان کے تعلیمی نظام اور تعلیمی اداروں سے واقفیت حاصل کر سکیں ۔
دراصل ازبکستان کا تعلیمی نظام تاریخی اور ثقافتی ورثے کا عکاس ہے، جس نے سویت دور سے لے کر موجودہ آزاد دور تک کئی تبدیلیاں دیکھی ہیں۔ اس ملک کی حکومت تعلیم کو اہم ترجیحات میں شمار کرتی ہے کیونکہ یہ معاشرتی ترقی اور اقتصادی خوشحالی کا بنیادی ستون سمجھا جاتا ہے۔یہاں یہ زکرکرنا ضروری ہے کہ ازبکستان کا تعلیمی نظام سویت یونین کے زمانے میں مرکزی کنٹرول کے تحت تھا، جہاں سائنسی اور تکنیکی تعلیم پر زور دیا جاتا تھا۔ 1991 میں ازبکستان کی آزادی کے بعد، ملک نے اپنے تعلیمی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کی تاکہ عالمی معیار کے مطابق ہو سکے۔یہاں میں بتاتا چلوں کہ ازبکستان میں تعلیم کو آئینی حق کے طور پرتسلیم کیا گیا ہے اور ابتدائی سے ثانوی سطح تک تعلیم لازمی اور مفت فراہم کی جاتی ہے۔ ابتدائی تعلیم 7 سال کی عمر سے شروع ہوتی ہے اور 4 سال پر مشتمل ہوتی ہے، اس کے بعد 5 سال کی ثانوی تعلیم ہوتی ہے۔ ثانوی تعلیم کے بعد طلباء کو دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے: عمومی تعلیم یا پیشہ ورانہ تعلیم۔دراصل ازبکستان میں فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے تاکہ طلباء کو عملی مہارتوں سے لیس کیا جائے جو انہیں روزگار کے مواقع فراہم کرے۔ اس سلسلے میں کئی پیشہ ورانہ اور تکنیکی ادارے کام کر رہے ہیں۔
اسی طرح اعلیٰ تعلیم کے میدان میں ازبکستان نے پچھلے چند سالوں میں نمایاں ترقی کی ہے۔ یہاں کئی یونیورسٹیاں اور تحقیقی ادارے موجود ہیں، جہاں ملکی اور غیر ملکی طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ حکومت نے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی بین الاقوامی درجہ بندی کو بہتر بنانے اور تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے لیے مختلف اصلاحات متعارف کرائی ہیں۔
اگرچہ ازبکستان نے تعلیمی نظام میں بہتری کے لئے کافی اقدامات کیے ہیں، لیکن اسے کئی چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں تعلیمی اداروں کی جدیدیت، نصاب کی اپ ڈیٹ، اور تعلیمی سہولیات میں کمی شامل ہیں۔ حالیہ برسوں میں، حکومت نے مختلف اصلاحات کے ذریعے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان اصلاحات میں ڈیجیٹل تعلیم کا فروغ، اساتذہ کی تربیت، اور طلباء کو جدید ٹیکنالوجیز سے آراستہ کرنا شامل ہیں۔ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ ازبکستان کا تعلیمی نظام مستقبل میں ملک کی ترقی کا ایک اہم جزو ثابت ہو سکتا ہے، بشرطیکہ حکومت اپنی تعلیمی پالیسیوں کو مزید بہتر بنانے اور عالمی معیار کے مطابق ڈھالنے میں کامیاب ہو۔ تعلیم کے ذریعے ازبکستان نہ صرف اپنے عوام کی زندگی کے معیار کو بہتر بنا سکتا ہے، بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک نمایاں مقام حاصل کر سکتا ہے۔