وستوں نے اب دعائیں مانگنا شروع کر دی ہیں کہ یا اللّٰہ اسے واپس آسڑیلیا بھیج ورنہ یہ یوں ہی لکھ لکھ کر ہمیں بور کرتا رہے گا
شائد ان کی دعائیں قبول ہو گئیں
ہم جیسے ہی درہ خنجراب سے واپس آئے اور رات ایگل نیسٹ Eagle Nest میں ٹھہرے خبر ملی کہ آسڑیلیا واپسی کی سیٹ کنفرم ہو گئی ہے تو فوراً سرگودھا واپسی کا قصد کر لیا سوچا بہت دھول اڑا لی اب باقی دن والدہ کے ساتھ گزاریں گے
ورنہ ہمارے ارادے تو بہت بلند تھے
وادئ سکردو ، وادئ استور اور وادئ نلتر جانے کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے
ایگل نیسٹ بہت خوبصورت چھوٹا سا گاؤں ہے۔ جو
کریم آباد کے عین اوپر تقریباً دس ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے جہاں سے آپ لیڈی فنگر اور راکا پوشی سمیت چھ چوٹیوں کا نظارہ کر سکتے ہیں
ایگل نیسٹ تک پہنچنے کے لئے آپ کو بہت دشوار گزار پہاڑی راستے سے چڑھنا پڑتا ہے جو تقریباً عمودی تنگ سنگل روڈ پر مشتمل ہے ۔
ایگل نیسٹ Eagle Nest کے پس منظر سے بہت کم لوگ واقف ہیں ۔
چونکہ کریم آباد ہنزہ کا صدر مقام ہے اور ہنزہ میں پچانوے فی صد اسماعیلی رہتے ہےں جن کا پیشوا سر آغا خان ہے ۔ آغاخان ایک مذہبی ٹائیٹل ہے جو اسماعیلی فرقہ کے امام کے لئے مخصوص ہے ۔
اور اماموں کا یہ سلسلہ حسن بن صباح تک پہنچتا ہے جو گیارہویں صدی عیسوی کا ایک بہت پراسرار کردارہے جس کے بارے میں بہت سی عجیب وغریب اور مافوق الفطرت قسم کی کہانیاں مشہور ہیں
وادئ ہنزہ کے اسماعیلیوں کا تعلق نزاری فرقہ سے ہے جس کا بانی حسن بن صبا تھا ۔
حسن بن صباح نے 1088ء کو ایران میں بحیرہ قزوین کے کنارے کوہ البرز کے پہاڑی علاقے میں پہلی اسماعیلی نزاری ریاست قائم کی جس کا دارالحکومت قلعہ الموت تھا ۔ قلعہ الموت کو ناقابل شکست تصور کیا جاتا تھا کیونکہ وہ ایک بہت اونچی اور دشوار گزار پہاڑی چوٹی پر قائم تھا ۔ اسی مناسبت سے حسن بن صباح اور اس کے پیشرو شیخ الجبال بھی کہلاتے تھے ۔ قلعہ الموت موجودہ تہران سے سو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ۔
حسن بن صباح کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے قلعہ الموت میں جنت بنا رکھی تھی جہاں وہ اپنے ماننے والوں کو لے جایا کرتا تھا جنہیں فدائی کہتے تھے ۔ اس جنت میں خوبصورت باغات نہریں اور حسین ترین لڑکیاں موجود ہوتی تھیں جنہیں حوروں کے روپ میں پیش کیا جاتا تھا ۔ پہلے وہ حشیش (بھنگ ) کے اثر سے اس طرح بے ہوش کر دیے جاتے تھے کہ ان کے دل میں کسی منشی چیز کا گمان بھی نہ ہوتا تھا۔ بے ہوش ہونے کے بعد خاص ذریعوں سے اور راستوں سے وہ جنت میں پہنچائے جاتے۔ جہاں پہنچتے ہی وہ ہوش رہا اور دلربا حوروں کی آغوش شوق میں آنکھ کھولتے اور اپنے آپ کو ایک ایسے عالم میں پاتے، جہاں کی خوشیاں اور مسرتیں ان کے حوصلے اور ان کے خیال سے بالا تر ہوتیں۔ پر فضا وادیوں، روح افزا آبشاروں، جان بخش باغوں اور فریب نظر مرغ زاروں میں سیر کرتے، حوروں کی صحبت ان کی دلستانی کرتی، مے ارغونی میں لبریز جام یہاں شراب طہور کا نام لے کر دیے جاتے تھے جو انھیں دنیاومافیہا سے بے پروا کردیتے۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ دوباہ حسن بن صباح کے پاس پہنچائے جاتے۔ جہاں آنکھ کھول کر وہ اپنے کو شیخ کے قدموں پر پاتے۔
ان کو پھر جنت میں پہنچنے کی امید دلائی جاتی اور ان لوگوں سے جنت کی چاٹ پر یہ ظالمانہ کام لیے جاتے۔ بڑے بڑے امرا انہی کے خنجروں سے قتل ہوئے اور انہی فدائیوں نے نظام الملک کی بھی جان لی۔ فدائیوں کو اس جنت میں حشیش کے نشے میں رکھا جاتا تھا چند دن وہاں رکھنے کے بعد انہیں وہاں سے نکال کر کسی اہم شخصیت کو قتل کرنے کا کام سونپ دیا جاتا ۔ فدائیوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ حکم بجا لانے میں لاثانی تھے۔ اپنے سربراہ یعنی شیخ الجبل کے ایک اشارے پر اپنی جان دینے کے لیے تیار ہو جاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ سیاسی راستہ صاف کرنے کے لیے حسن بن صباح نے اپنے فدائیوں سے کئی سیاسی مخالفین کو ان کی خواب گاہوں میں قتل کروایا۔ قلعہ الموت میں فدائیوں کو ہتھیار استعمال کرنے کا فن سکھایا جاتا تھا۔ یہ سپاہی حسن کے حکم کی بے عذر آنکھیں بند کرکے تعمیل کرتے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق سینکڑوں علماء حکماء اور امراء ان فدائین کے ہاتھوں قتل ہوئے جن میں سلجوقی وزیر اعظم نظام الملک بھی شامل تھے ۔ ان فدائین کو تاریخ نگار حشاشین (Assassins) کے نام سے بھی پکارتے ہیں
قلعہ الموت فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی انگریزی میں ایگل نیسٹ اور اردو میں عقاب کا گھونسلہ کے ہیں ۔
۔ یہ قلعہ تقریباً اڑھائی سو سال تک ساری دنیا کے لئے چیلنج اور درد سر بنا رہا ۔ سلجوقوں اور ایوبیوں نےاسے فتح کرنے کی بڑی کوشش کی لیکن ناکام رہے اور بالآخر 1256 ء میں چینگیز خان نے اسے فتح کر کے نذر آتش کر دیا ۔
جنگ الموت میں منگولوں کے ہاتھوں قلعۂ الموت کی تباہی کے15 برس بعد مشہور اطالوی سیاح مارکو پولو 1272 میں چین جاتے ہوئے اس علاقے سے گذرا۔ اپنے مشہور زمانہ سفرنامے میں مارکو پولو نے حسن بن صباح کی مصنوعی جنت کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے:
“شیخ الجبال نے دو پہاڑوں کے درمیان واقع وادی میں ایک وسیع و عریض اور خوشنما باغ بنوایا ہے جس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔ اس میں ہر قسم کے پھل پائے جاتے ہیں اور تصور سے باہر حسین محلات اور خیمے ہیں جن پر سونے کے ورق چڑھے ہیں اور ان میں نفیس تصاویر ہیں۔ اس باغ میں چھوٹی چھوٹی ندیاں ہیں جن میں شراب، دودھ، شہد اور پانی بہتا ہے اور یہاں دنیا کی حسین ترین دوشیزائیں ہیں جو ہر طرح کے ساز بجاتی ہیں اور وہ حسین نغمے گاتی ہیں اور دل لبھانے والے رقص کرتی ہیں۔’ مارکو پولو مزید لکھتا ہے کہ 12 سے 20 برس عمر کے نوجوانوں کو نشہ پلا کر اس باغ میں لایا جاتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جنت میں پہنچ گئے ہیں۔ اس کے بعد جب انھیں بے ہوش کر کے اس فردوسِ بریں سے نکالا جاتا ہے تو وہ اپنی زندگی کی پروا کیے بغیر کسی کو بھی قتل کرنے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔
”
جب کہ حسن بن صباح کے حامیوں کا موقف ہے کہ جنگ الموت کے بعد اس قلعے پر قابض منگولوں کے مشہور منشی عطا ملک جوینی نے بھی اپنی کتاب تاریخ جہانگشائی میں اس جنت کا کہیں ذکر نہیں کیا ہے جس کو تاریخ الموت کے حوالے سے ایک جامع اور مستند کتاب سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ مخالفین نے عوام کو شیخ الجبل حسن بن صباح سے بدظن کروانے کے لیے یہ جھوٹی حکایت بنالی ہو ۔
آج کریم آباد کےعین اوپر انتہائی دشوار گزار اونچی چوٹی پر قائم ایگل نسٹ بھی اسی قلعہ الموت کی یادگار ہے ۔
جب واپسی کا اردہ کیا تو سوچا گلگت میں بہت پیارے دوست طارق خان کی والدہ کی عیادت کرتے ہوئے چلاس جائیں گے ۔ جہاں ڈاکڑ سید مصطفیٰ صاحب ہمارا انتظار کر رہے تھے۔
طارق خان کی والدہ کافی عرصے سے شدید بیمار تھیں ۔
طارق خان دوستوں کے حلقے میں طارق گلگتی کے نام سے مشہور ہیں جب انہیں آسڑیلیا فون کیا تو پتہ چلا کہ ان کی والدہ چند روز پہلے ہی رضائے الہیٰ سے وفات پا گئی ہیں
اب تو ان کے گھر جانا اور بھی ضروری ہوگیا ورنہ ساری عمر ان سے آنکھیں نہ ملا پاتے
گلگت میں ان کا خوبصورت گھر دریائے گلگت کے کنارے پر ہے
ان کے چھوٹے بھائی عامر سلطان بہت ملنسار مہمان نواز اور پیارے انسان ہیں انہوں نے خوب آؤبھگت کی ۔ طارق خان کے گھر پہنچ کر احساس ہوا کہ کہ وہ پورا گھرانہ بڑی شدت سے ان کی آمد کا منتظر ہے لیکن کووڈ COVID کے باعث قائم سفری سختیوں کی وجہ سے انہیں آسڑیلیا چھوڑنے کی اجازت نہیں مل رہی ۔
ان کی بڑی بہن سے مل کر ایسا لگا جیسے ہماری کوئی بڑی بہن ہوتی تو بلکل ان جیسی ہوتی
طارق خان کے گھر والوں نے رات قیام کے لئے شدید اصرار کیا لیکن ہم ان سے پھر آنے کا وعدہ کر کے اسی دن واپس چلاس چلے آئے اور حسب وعدہ ڈاکٹر مصطفیٰ کے ہاں قیام کیا۔
یہاں آکر پتہ چلا کہ رات خوب برف باری ہوئی اور بابو سر ٹاپ کا رستہ بند ہو چکا ہے
ڈاکڑ صاحب کے اصرار پر اور اس امید پر کہ شائد رستہ کھل جائے ان کے ہاں قیام کو طول دے دیا
کیونکہ شاہراہ قراقرم کے بارے میں اتنی خوفناک کہانیاں سنائی گئی تھیں کہ اس پر سفر کرنے کے نام سے بھی ہول آتا تھا
اس طویل قیام سے ہمیں گلگت بلتستان اور چلاس کو دیکھنے اور سمجھنے کا مزید موقعہ ملا
گللگت بلتستان جو دیکھنے میں ایک نظر آتا ہے درحقیقت مختلف گروہوں اور معاشروں کا بڑا عجیب سا امتزاج ہے
جنہیں زبردستی ایک چھت کے نیچے اکٹھا کرنے کی کوشش کی گئی ہے
خاص طور پر وادئ ہنزہ اور
وادئ دیا میر دو مختلف اور ایک دوسرے کی بالکل مخالف اور متضاد تہذیبیں ہیں
ان میں بہت کم چیزیں مشترک ہیں یوں لگتا ہے جیسے ان دونوں وادیوں کے لوگ دو مختلف دنیا کے باسی ہوں دو الگ الگ سیاروں کے رہنے والے ہیں
حقیقت میں تو یہ آگ اور پانی کا امتزاج ہے
ہم نے چند میل کے فاصلے پر رہنے والوں میں تہذیب کلچر، تمدن ، رہن سہن اور معاشرت کا اتنا زیادہ فرق پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا
وادئ ہنزہ میں ننانوے فی صد نظیری اسماعیلی ہیں شرح خواندگی پچانوے فی صد ہے
کریم آباد میں یہ شرح سو فی صد ہے اور لوگ اتنے خوشحال ہیں کہ پورے ہنزہ میں کوئی غریب نظر نہیں آتا
ڈھونڈے سے بھی کوئی فقیر کوئی مانگنے والا نہیں ملتا
عورت ہر میدان میں مرد کے شانہ بشانہ نظر آتی ہے لوگوں کا رہن سہن اتنا ماڈرن اور جدید ہے کہ بسا اوقات مقامی باشندوں اور سیاحوں میں تفریق مشکل ہو جاتی ہے کریم آباد میں مقامی خواتین جنیز پہنے کاروبار کرتی بھی نظر آتی ہیں
اہل ہنزہ کے لئے سب سے زیادہ اہمیت ان کے حاضرامام پرنس کریم کی ہے پاکستان کی نسبت ان کی وفاداریاں اپنے امام کے ساتھ زیادہ ہیں
جبکہ چلاس میں
معاشرہ آج بھی صدیوں پرانے قبائیلی رسم و رواج میں سختی سے جکڑا نظر آتا ہے
چلاس دیامیر میں اسی فی صد سے زیادہ لوگ سنی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں
مقامی لوگ اپنے رہن سہن اور پہناؤ کے اعتبار سے دور سے پہچانے جاتے ہیں
اور وادئ ہنزہ کے لوگوں سے کوسوں دور کھڑے نظر آتے ہیں
یہ علاقہ اتنا غریب ہے کہ گورنمنٹ کھانے پینے کی چیزوں پر بھی subsidies دیتی ہے
یہاں تک کہ جو گندم پنجاب میں
اٹھارہ سو من ملتی ہے وہ ان لوگوں کو چھ سو روپے من پر دی جاتی ہے
دیا میر اور چلاس میں آپ کو ایک بھی عورت بازار میں یا گلیوں میں نظر نہیں آئے گی
چند سال پہلے تک پورے دیا میر کے علاقے میں خواتین کا کالج نہیں تھا
صرف ایک گرلز ہائی سکول تھا
یہاں خواتین کو پڑھانے کا بالکل رواج نہیں
ڈاکڑ مصطفی صاحب نے بتایا کہ انہوں نے اپنی بیٹیوں کو پڑھایا ہے اور انہیں اس معاملے میں اپنے رشتہ داروں اور خاندان کی طرف سے انتہائی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ ڈٹے رہے
اس معاملے میں ان کی جرآت واقعی قابل ستائش ہے
ورنہ باد مخالف کی تندی اور تیزی کا سامنا کرنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں
انکی سب سے چھوٹی بیٹی اسلام آباد میں ایم بی بی ایس فائنل میں ہے
اور اس پورے علاقے کی پہلی خاتون ڈاکٹر ہو گی
ان کا بڑا بیٹا مجتبیٰ چین میں سکالر شب پر megatronics انجینیرنیگ میں گریجویشن کر رہا ہے
انہوں نے بڑے یقین سے کہا کہ انشاءاللّٰہ جب میری بیٹی ڈاکٹر بن کر واپس آئے گی تو اور بھی بہت سے لوگوں کے دل میں اپنی بیٹیوں کو ڈاکٹر بنانے کی خواہش جاگے گی
اور ہمار ایمان ہے ایسا ہی ہوگا
آمنہ بیٹی بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوگی
ایک دن ایسا ضرور آۓ گا جب یہاں کے لوگوں میں اپنی بیٹیوں کو ڈاکٹر بنانے کی دوڑ لگ جائے گی
بھاشا دیامیر ڈیم کی جھیل تیس کلو میٹر لمبی ہو گی اور خاص طور پر دیامیر اور چلاس کے علاقے کو متاثر کرے گی
گورنمنٹ نے مناسب قیمت پر مقامی لوگوں سے زمین خریدی ہے جس کی وجہ سے اب یہاں پیسے کی ریل پیل نظر آتی ہے لیکن اس سے بھی ذیادہ فائدہ ان ہی لوگوں کو ہوا جو پہلے ہی زمینوں کے مالک تھے
عام آدمی آج بھی غربت کی چکی میں پس رہا ہے
لیکن ان لوگوں کی پاکستان سے محبت مثالی ہے ان کا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے
دو دن کے بعد خبر آئی کہ بابو سر ٹاپ کو مستقل بند کر دیا گیا ہے
اس لئے واپسی کے لئے شاہراہ قراقرم کے سوا کوئی چارا نہ تھا
ڈاکڑ صاحب سے رخصت چاہی تو وقت رخصت انہوں نے مقامی رواج کے مطابق ہمارے کندھوں پر اونی چادر ڈال کر ہمیں عزت بخشی اور اپنا بھائی قرار دیا
ان کی محبت اور مہمان نوازی ہمیشہ یاد رہے گی وہ ہمارے اس ٹور کا سب سے زیادہ قیمتی حاصل ہیں
چلاس سے داسو کا فاصلہ 125کلو میڑ ہے یہ فاصلہ پانچ گھنٹوں میں طے ہوا
زندگی میں کسی سڑک کی اتنی بری حالت کبھی نہیں دیکھی
بلکہ اسے سڑک کہنا ہی سڑک کی توہین ہے
سڑک کے نام پر ایک کچا ناہموار رستہ ہے جو گڑھوں پتھروں چٹانوں اور پانی کے چھوٹے تالابوں سے بھرا پڑا ہے
راستے میں زیر تعمیر بھاشا ڈیم اور داسو ڈیم بھی دیکھے اور سڑک کے کنارے پڑی چینی انجینرز کی وہ بس بھی جو پچھلے دنوں دھماکے میں تباہ ہوئی
رات گئے سات گھنٹے کے انتہائی تھکا دینے والے تکلیف دہ سفر کے بعد بشام پہنچے
اس سارے سفر میں گلگت سے ہمسفر بننے والا دریائے سندھ تھا کوٹ تک ہمارا ساتھی رہا جو قراقرم ہائی وے کے متوازی بہتا ہے اور ایک لمحے کے لئے سڑک سے جدا نہیں ہوتا
تھا کوٹ تک سی پیک موٹروے بن چکی ہے
بشام کے بعد جوں ہی ہم تھا کوٹ سے سی پیک موٹر وے پر چڑھے یوں لگا جیسے کسی اور ہی دنیا میں سفر کر رہے ہوں
اونچے سر سبز پہاڑوں میں گھرا بشام ضلع کوہستان پختون خواہ کا انتہائی خوبصورت شہر ہے جو دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر آباد ہے بشام تیس سال پہلے دیکھا تھا
اور کئی بار دیکھا تھا ۔ کالج کے دور میں فسٹ ائیر اور سکینڈ ائیر ہر سال یہاں آیاکرتی تھی اور سٹوڈنس یونین کا جنرل سکیریڑی ہونے کے ناطے ہر کلاس کے ساتھ ہم بھی یہاں آیا کرتے تھے ۔
لیکن بشام اب بہت بدل گیا ہے
کسی دور میں صرف چند ہوٹل ہوتے تھے اب ہر طرف صرف ہوٹل ہی ہوٹل نظر آرہے اینٹ اور پتھر کی عمارتوں نے جیسے یہاں کی قدرتی خوبصورتی کوشقتل کر دیا تھا
رات بشام میں قیام کے بعد براستہ مظفرآباد بھوربن جانے کا ارادہ ہے جہاں ہمارے پیارے بھائی توصیف جاوید کا
کا holiday home ہے وہ خود تو سعودی عرب میں رہتے ہیں لیکن انہوں نے کمال مہربانی کا ثبوت دیتے ہوئے وہاں ہماری رہائش کا بندوبست کیا ہے
توصیف بھائی ہمیں آپ سے پیار ہے
یہ صرف میں نہیں کہہ رہا میرے تینوں ساتھی بھی میری تائید کر رہے ہیں