اگر تعمیر کی نیت سے تنقید کی جائے تووہ یقینا مفیدہوسکتی ہے۔جو ارباب اقتدار واختیار پر تنقیدکرتے ہیں وہ بہتری کیلئے سنجیدہ تجاویز بھی دیں توبات ضرور بنے گی۔ تعمیرریاست کیلئے تعمیری سیاست اور تعمیری صحافت کی ضرورت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔تعمیرریاست کیلئے تعمیری سیاست اورتعمیری صحافت کوفروغ دینا ہوگا،محض لفاظی یاشعبدہ بازی سے ہماری ریاست اورمعاشرت کاکوئی شعبہ بہتر نہیں ہوسکتا۔ان دنوں پنجاب ” زیرآب” اورہمارا انتھک کسان” زیرعتاب” ہے۔ تاریخ کے اوراق شاہد ہیں آج تک کوئی سیلاب دبے پاؤں نہیں آیا،سیلاب دناندتے،دھاڑتے،چنگھاڑتے اورشورمچاتے ہوئے آتے اورانسانوں اورحیوانوں سمیت شہری املاک اپنے ساتھ بہالے جاتے ہیں۔ہمارے ہاں ہرسال بے رحم سیلاب دریاؤں سے “نکل” کر ہماری قیمتی ” نسلیں “اور”فصلیں ” تک “نگل “جاتا ہے۔کاش ہم نے اپنی ہوش میں کوئی فرض شناس اورنبض شناس حکومت دیکھی ہوتی جوبروقت اس کے آگے بندباندھ سکتی۔ ” سفیدپوش” تو ہرسال سیلاب سے متاثر ہوتے ہیں لیکن اس بار”پوش طبقہ” بھی اس کی زدمیں آگیا ہے۔جو لوگ کہاکرتے تھے! ” راوی نہ آو ی نہ جاوی”،وہ اب کہاں ہیں۔بڈھاراوی کہنا بھی درست نہیں تھا،راوی نے اپنی اراضی واگزر کرلی ہے، وہاں نیا لاہور بنانے اوربسانے کامنصوبہ ملیامیٹ ہوگیا۔جس نے راوی کوانڈراسٹیمیٹ کیاوہ راوی برد ہوگیا،راوی کی اراضی پرمحلات تعمیرکرنے کیلئے انتہائی عجلت بلکہ مجرمانہ غفلت کامظاہرہ کیا گیالیکن ہمارے ہاں مجرمان کوانصاف کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیاجاتا لہٰذاء ان کی مجرمانہ سرگرمیوں اورسیلاب میں کوئی فرق نہیں ہے۔ سیلاب سے قبل پوش سوسائٹیز میں جوقصر کروڑوں کے تھے بپھرے ہوئے راوی نے انہیں کوڑیوں کاکردیا۔امید ہے سیلاب سے ہونیوالے حالیہ نقصانات کے بعد حکومت کی ترجیحات تبدیل ہوں گی اورآئندہ مون سون سے قبل ناگزیر اصلاحات اورتعمیرات پرسنجیدہ انداز سے کام شروع ہوگاکیونکہ مقروض پاکستان ہر سال سیلاب کے نتیجہ میں بیش قیمت انسانی جانوں کے ضیاع اور کئی اربوں ڈالرز کے مالی نقصان کامتحمل نہیں ہوسکتا۔حالیہ سیلاب کے تناظر میں آبی ماہرین کانمائندہ ایک اعلیٰ سطحی بااختیار کمیشن بنایا جائے جو اعداد و شمار اور شواہد کی بنیاد پر نااہلی کے مرتکب حکام کے نام اوران کا مجرما نہ کرداربارے قوم کو بتائے اور آئندہ سال سیلاب کے سدباب کیلئے سنجیدہ تجاویز دے۔ہرسال دریاؤں،نہروں اورنالوں کی تہہ سے ریت اورمٹی نکال کران کے کناروں کی سطح بلند کی جائے،مقامی شہری اوردیہاتی بھی رضاکارانہ طورپراس کارخیرمیں شریک ہوں۔اگر ہمارا ہمسایہ دوست ملک چائنہ دیوار چین تعمیرکرسکتا ہے توکیا ہماری ریاست ہرسال آنیوالے سیلاب کے سدباب کیلئے پختہ تعمیرات نہیں کرسکتی۔
بدقسمتی سے ہمارا مراعات یافتہ اوربااختیارطبقہ سال بھر سیلاب کے انتظار میں ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھے رہتا ہے،سیلاب آنے کے بعد ان کی آنیاں جانیاں درحقیقت سانپ کی لکیر پیٹنے کے مترادف ہیں۔پنجاب کی خاتون منتظم اعلیٰ کوبھی ممکنہ سیلاب کی صورتحال کے جائزہ کیلئے ایک ناؤ میں بیٹھے راوی دریا میں ” اترے”ہوئے دیکھا گیا،ماضی میں بھی حکمران بارش یاسیلاب کے پانی میں “اترا”کرتے تھے لیکن اس طرح پانی ہرگز نہیں “اترتا”۔حکمرانوں کولگتا ہے وہ اس طریقہ سے عوام میں بہت “مقبول” ہوسکتے ہیں لیکن یہ انداز ان کی گورننس کو” معقول”اورقابل قبول نہیں بناسکتا۔پنجاب کی خاتون وزیراعلیٰ کواپنی اوراپنے ٹیم ممبرز کی زندگی داؤپرلگانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی،اللہ نہ کرے کوئی ناخوشگوارحادثہ پیش آ سکتا تھا۔کوئی خادم ہویامخدوم ہرکسی کی زندگی قیمتی ہے۔بدقسمتی سے پنجاب کے بردبار چیف سیکرٹری زاہداخترزمان نے بھی وزیر اعلیٰ مریم نواز کو دریامیں جانے کے خطرناک کام سے نہیں روکابلکہ انہیں خودبھی راوی کے تیز”بہاؤ”کی پرواہ کئے بغیر” ناؤ”میں بیٹھناپڑا۔ محض ناؤمیں بیٹھ کردریامیں طغیانی کاجائزہ نہیں لیاجاسکتا لہٰذاء آبی ماہرین کوان کاکام کرنے دیاجائے۔ ضرورت سے زیادہ وی آئی پی موومنٹ اورفوٹوشوٹ سے آبی ماہرین اورمستعد اہلکاروں کے کام میں رکاوٹ پیداہوتی ہے۔ جس طرح آگ بجھانا فائر فائٹر زکاکام ہے اس طرح جوسیلاب میں کام کرنے کیلئے تربیت یافتہ ہیں ان کے سوا کوئی دوسرایہ کام نہیں کرسکتا۔ اللہ نہ کرے اگر کسی شہریاٹاؤن میں کوئی وباپھوٹ پڑے توکیا حکمران وہاں متاثرین کی طبی معائنہ کرنا شروع کردیں گے، یقینا مستند طبی ماہرین کے سواکوئی ایسا نہیں کرسکتا۔ڈاکٹر اورانجینئرز سمیت ہر پروفیشنل کواس کاپیشہ ورانہ کام کرنے دیاجبکہ ان کے کام میں بیجا مداخلت سے گریزکیاجائے۔
یادرکھیں بھارت سے فاسق اور منافق دشمن سے کچھ بھی بعید نہیں ہے،وہ ایک طر ف مجرمانہ سوچ کے تحت ہماری طرف آنیوالے دریاؤں کاپانی روکتا اوردوسری طرف ہمارے روکے ہوئے” آب” سے ہمارے شہروں اورشہریوں کو “غرقاب” کرنے کی نیت سے اسے چھوڑتا ہے جبکہ ہمارے حکمران بھارت کی اس منظم آبی جارحیت کے مقابل پوری طرح بے بس ہیں۔انتہاپسند اور متعصب بھارت نے ماضی کی طرح اس بار بھی سیلاب کے دوران وہ سب کچھ کیا جوانسانیت اور اخلاقیات سے عاری دشمن کرسکتا تھا لیکن ہمارے کچھ اپنے نادان دوست بھی دشمن سے زیادہ خطرناک ہیں جواپنا آئینی فرض وقت پرادانہیں کرتے جبکہ اپنی ناقص ترجیحات سے مقروض ملک کے محدودقومی وسائل کاضیاع کرتے ہیں۔ حالیہ دہائیوں کے دوران اقتدارمیں آنیوالے ہمارے حکمران ہرسال سیلاب کے بعد بھارت کے پیچھے چھپ جایاکرتے تھے لیکن یہ سلسلہ مزید نہیں چلے گا۔مصیبت زدہ قوم کواعتمادمیں لیا اوربتایاجائے،ارباب اقتدار واختیار نے مون سون شروع ہونے سے قبل ممکنہ سیلاب کے سدباب کیلئے کیا ناگزیر اقدامات اٹھائے تھے اورکیا ترجیحات طے کی تھیں۔بھارت کی آبی جارحیت اچانک شروع نہیں ہوئی،یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ان دہائیوں میں پاکستان کے قلم کاروں،کالم نگاروں،تجزیہ کاروں اورآبی ماہرین کی دوہائیوں کے باوجود کسی حکمران نے ان پرکان دھرتے ہوئے ڈیم تعمیرکرنے پردھیان نہیں دیا۔ چندبرس قبل عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس (ر)میاں ثاقب نثارنے ڈیم فنڈقائم کیا توالٹاان پرتنقیدکی گئی تھی جبکہ وہ فنڈز نہ صرف آج بھی بنک میں موجود ہیں بلکہ ان میں اضافہ ہوا ہے۔پچھلے دنوں عدالت عظمیٰ میں ایک سماعت کے دوران ڈیم فنڈ کے اعدادوشمار منظرعام پرآئے۔ہمارے حکمران بھارت کے مذموم اورجارحانہ عزائم کاادراک ہوتے ہوئے بھی ریاستی ترجیحات تبدیل کرنے کیلئے تیار نہیں ہوئے۔ ہماری ریاست،معاشرت،معیشت اور زراعت کی بقاء کیلئے جوکام ہمارے کرنیوالے ہیں وہ کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔ اگرہماری سیاسی پارٹیز مختلف سیاسی نظریات ہوتے ہوئے بھی اپنے اپنے سیاسی مفادات کی نیت سے آئین میں ترمیم کیلئے متفق،متحد اورمستعد ہوسکتی ہیں توپھر ملک میں نئے ڈیم تعمیرکرنے کیلئے قوم میں اتفاق رائے کیوں پیدانہیں کیاجاسکتا۔
جب سیلاب آجائے تو پھر اسے روکنا یااس کارخ موڑنا آسان نہیں ہوتا، ضرورت اس امر کی ہے ارباب اقتدار واختیار مادروطن کے مستندآبی ماہرین کی مشاورت اور معاونت سے بروقت ہروہ اقدام کریں جوسیلاب کے سدباب کویقینی بناسکتا ہو۔سیلاب آنے اورملک میں صف ماتم بچھنے کے بعدجائزہ کیلئے دریاؤں کارخ کرنے کی بجائے مون سون سے قبل ممکنہ سیلاب کی “رُوٹ کاز”پر غوراوراس کے” رُوٹ “کامعائنہ جبکہ وہاں سے ملی معلومات سے استفادہ کرتے ہوئے ممکنات میں سے ہرمفیدآپشن استعمال کیاجائے۔ ارباب اقتدار واختیار ایک مستقل منصوبہ بندی کے تحت دریاؤں کے کناروں اوران کی گزرگاہوں سے انسانوں کی آبادیاں دوررکھیں،وہاں سے ناجائز تعمیرات اورتجاوزات کوبلڈوزکیاجائے۔پنجاب سمیت ملک بھر میں انتہائی منظم انداز میں شجرکاری کوفروغ دیا جبکہ اشجار کاکٹاؤپوری طرح بندکیاجائے۔اللہ ربّ العزت کوبھی درخت بیحدپسند ہیں،جب اس کاکوئی بندہ ایک بار”سبحان اللہ” کہتا ہے توانعام کے طورپراس کی جنت میں ایک درخت لگادیاجاتا ہے۔راقم کے نزدیک کسی بھی شجرسایہ دار پرکلہاڑے سے وارکرنا مجرمانہ فعل بلکہ قتل عمد ہے کیونکہ اشجار بھی جانداراور بچے پیدا جبکہ انسانوں کوآکسیجن مہیا کرتے ہیں،اس اعتبار سے انہیں انسانیت کا محسن کہنا بیجا نہیں ہوگا۔یادرکھیں تناور پیڑوں کی نسل کشی بھی محسن کشی ہے۔ شجرکاری یقینا منفعت بخش سرمایہ کاری ہے لہٰذاء ایک” بشر” ایک” شجر” اصول کے تحت ہر کوئی شجر کاری میں اپنا کلیدی کرداراداکرے۔سیلاب کے سدباب کیلئے دوسری تدابیر کے ساتھ ساتھ اشجار پر انحصار کرنا بھی کافی فائدہ مندہوگا۔ سیلاب ہرسال اپنے پیچھے کئی دردناک سانحات کے انمٹ نشانات چھوڑجاتا ہے۔یادرکھیں پاکستان کے اندر بار بار آنیوالے سیلاب کے نتیجہ میں رونماہونیوالے دلخراش، اندوہناک اورالمناک سانحات ریاستی ترجیحات میں بروقت، درست اوردوررس تبدیلیوں کے متقاضی ہیں۔