انسان قدرت سے ملی جس” قسمت “کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں اس کی کوئی “قیمت “نہیں ہوتی جبکہ محنت کاکوئی متبادل نہیں ہوتا۔انسان کا جہدمسلسل سے بنایا”راستہ” پائیدارکامیابی سے” آراستہ” ہوتا ہے۔ ہرچورراستہ ایک بندگلی میں کھلتا ہے لہٰذاء صادق جذبوں کے ساتھ محنت کرتے چلے جانا شاندارجیت کی علامت اورضمانت ہے۔ہم انتھک محنت سے اپنی قسمت اورقیمت یقینا بدل سکتے ہیں۔آدم زاد کے ہراس مقام کواستحکام اوردوام ملتا ہے جو وہ کٹھن جدوجہد سے حاصل کرے۔جو منصب شورٹ کٹ(Short Cut) سے ملے اس کی عمربھی بہت شورٹ (Short) ہوتی ہے۔ کوئی اپنا وقاراورکردار عارضی عہدوں یا چندکوڑیوں کے عوض بیچنا منفعت بخش سمجھتاہے جبکہ معاشرے کے کچھ انمول افرادمخصوص سودے بازی کے ماہر سوداگروں کواپنے ضمیر کی بولی لگانے کی اجازت تک نہیں دیتے اوراپنی سیاسی وفاداریاں اورتوانائیاں کسی بھی قیمت پر نیلام جبکہ اپنے باپ دادا کانام بدنام نہیں کرتے۔یادرکھیں ہرانسان کے” چیلنجر” اور”چیلنجز “ایک سے نہیں ہوتے، ہر راستہ ہر انسا ن کوراس نہیں آتا۔جواپنے “فیصلے” خود کرے اُس کے اورمنزل کے درمیان” فاصلے” سمٹ جاتے ہیں۔جس کی رگ رگ میں خون کے ساتھ جنون دوڑتا ہووہ زندگی بھر مہم جوئی کے دوران پیش آنیوالی رکاوٹوں اورعداوتوں سے دل شکستہ یا دلبرداشتہ ہرگز نہیں ہوتا۔میں شاہد ہوں کسی منتقم مزاج کوعروج نہیں ملتا لیکن ہر مستقل مزاج فرداپنی منزل مقصود پر ضرورپہنچتا ہے۔باب العلم حضرت علی المرتضیٰ ؓ نے فرمایا تھا، “جوزمین پر بیٹھتا ہواسے گرنے کاڈر نہیں ہوتا”۔سینیٹ کے نیک نام،سنجیدہ اورسلجھے ہوئے ڈپٹی چیئرمین سردارسیدال خان ناصر کا”زمین “اور”سرزمین” کے ساتھ رشتہ بہت مضبوط ہے،وہ زمین پرقدم جما کر اوراپناسراٹھا کرچلناپسندکرتے ہیں۔انہوں نے طلبہ سیاست سے قومی سیاست اورکوئٹہ سے اسلام آباد تک کے “کٹھن “سفرمیں سیاسی” گھٹن” کاسامنا بھی کیا اورانہیں اپنی قیادت سے بھرپور آکسیجن بھی ملی۔وہ اپنے قائد میاں نوازشریف کے ساتھ دیوانہ وارمحبت کافرض اورقرض بااحسن اداکر تے ہیں۔انہوں نے سیاسی جدوجہد کاہررنگ دیکھا ہے لیکن اقتدار کی رنگینیوں سے ان کی نظریاتی شخصیت کا سنہرارنگ ماند نہیں پڑا۔ان کی ریاست کیلئے سیاست طویل ریاضت اورانتھک محنت سے عبارت ہے۔
سردارسیدال خان ناصر اپنے زمانہ طالبعلمی میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن بلوچستان کے منتخب،طلبہ برادری کے محبوب اورمقبول صوبائی صدر تھے۔اس طرح ان کے حلقہ احباب میں پنجاب،خیبرپختونخوا،آزاد کشمیر،گلگت بلتستان اورسندھ کی اہم سیاسی شخصیات کے نام بھی آتے ہیں۔وہ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) یوتھ ونگ کی مرکزی نظم سے وابستہ ہوئے اوروہاں قومی سیاست کے کوہ گراں خواجہ سعد رفیق کے معتمداورمقرب رفیق بنے اوران کے ساتھ صوبہ بلوچستان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) یوتھ ونگ کومنظم کرنے کیلئے دن رات کام کیا۔پاکستان اورنظریہ پاکستان آج بھی ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سردارسیدال خان ناصر کی سیاست کامحورومرکز ہے، وہ پچھلی چار دہائیوں سے بلوچستان میں پاکستانیت اوراپنے قائد میاں نوازشریف کے فلسفہ سیاست کی آبیاری کررہے ہیں۔بلوچستان کے مردوزن اپنے مادروطن پاکستان کے جانثار اورپاکستانیت کے علمبردار ہیں،میں وثوق سے کہتا ہوں کسی پشتون اوربلوچ سے کوئی ان کی قومی سوچ اورغیورپاکستانیوں کی حیثیت سے ان کافخر نہیں چھین سکتا۔اہل بلوچستان کی خودداری اورخوداعتمادی ان کاطرہّ امتیاز ہے، دشمن ملک جومرضی پروپیگنڈا کرے ہمارے پشتون اور بلوچ بھائیوں کے دل پاکستان کیلئے دھڑکتے جبکہ بزدل دشمن ان کاسامنا کرنے سے ڈرتے ہیں۔جوپشتون اوربلوچ بابائے قوم محمدعلی جناح ؒ کی قیادت میں قیام پاکستان کیلئے قربانیاں دینے میں پیش پیش تھے آج ان کے فرزند پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ محمد نوازشریف، وزیراعظم محمدشہبازشریف اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سردارسیدال خان ناصر کی قیادت میں استحکام پاکستان کیلئے سردھڑ کی بازی لگا رہے ہیں۔سردارسیدال خان ناصر نے زمانہ طالبعلمی میں صوبہ بلوچستان کے طول و ارض میں اپنے ہاتھوں سے جونظریہ پاکستان کے بیج بوئے تھے وہ شجرسایہ دار بنے ہوئے ہیں۔ان کی پرجوش قیادت میں صوبہ بلوچستان کی سطح پر مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن اورپاکستان مسلم لیگ (ن) یوتھ ونگ میں کام کرنیوالے کارکنان زندگی بھر اپنے ہاتھوں میں نظریہ پاکستان کاپرچم مضبوطی سے تھام بلکہ سربلند رکھیں گے،اس قسم کے نظریاتی کارکنان کو کسی محاذ پرشکست نہیں دی جاسکتی۔ان پشتون اوربلوچ عمائدین کے ہوتے ہوئے اندرونی یابیرونی شرپسندعناصر پاکستان کی سا لمیت اورقومی حمیت کومیلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے۔سردارسیدال خان ناصر اس پشتون قبیلے “ناصر”کے سرخیل ہیں جوآج بھی نظریہ پاکستان کے ساتھ ساتھ مادروطن کی جغرافیائی سرحدوں کامحافظ ہے۔ سردارسیدال خان ناصر کے دادا سردارمحمدموسیٰ جان مرحوم جو بابائے قوم محمدعلی جناح ؒ کی قیادت میں ہرقسم کے سودوزیاں سے بے نیاز قیام پاکستان کیلئے اپنا کلیدی کرداراد ا بلکہ اس خواب کوشرمندہ تعبیر کرنے کیلئے اپنا تن من دھن نچھاورکررہے تھے۔ تحریک قیام پاکستان کے دوران سرگرم کرداراداکرنیوالی بااثر سیاسی شخصیت سردار محمدموسیٰ جان مرحوم نے جب 17اپریل1975ء کی شام اپنے فرزند سرداررحمت خان کے آنگن میں اپنا نوزائیدہ پوتا دیکھا تواس وقت اسے گھٹی کے طورپراسلامیت اور پاکستانیت کا شہدچٹایااور “سردارسیدال خان “نام دیا۔سردار سیدال خان ناصر کے مثبت طرز سیاست میں ان کے محبوب قائد محمدنوازشریف کی والہانہ محبت کے ساتھ ساتھ بے پایاں شفقت، جبکہ ان کے نیک سیرت اورنیک نام ماں باپ کی بہترین تعلیم وتربیت اور منجھے ہوئے سیاسی اساتذہ کی صحبت کارنگ جھلکتا ہے، ان کے والد بزرگوار سرداررحمت خان کی طرف سے رحمت بھرے اندازمیں کارزارِ حیات کے قدم قدم پراپنے فرزندارجمند کی بھرپور حوصلہ افزائی،رہنمائی اورپذیرائی کی گئی۔سردارسیدال خان ناصر کو پاکستان سے محبت جبکہ صوبائیت اورمنافرت سے بیزاری اپنے باپ دادا سے ورثہ میں ملی ہے لہٰذاء ان سے پاکستانیت کاسبزہلالی پرچم کوئی نہیں چھین سکتا۔طلبہ سیاست سے قومی سیاست تک وہ مختلف مراحل سے گزرے تاہم پرویزی آمریت کے پرآشوب دورمیں انہیں انتقامی سیاست کی بھٹی میں کئی بار جلنا پڑا جس نے انہیں کندن اور اپنے محبوب قائد محمد نوازشریف کی اصولی سیاست اورشخصیت کامزیدمداح بنادیا۔
راقم کو ورلڈ کالمسٹ کلب کے مرکزی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے12اگست 2017ء کو حکومت بلوچستان کی پرخلوص دعوت پر یوم آزادی کی پروقاراورشاندار تقریبات میں شرکت کیلئے کوئٹہ جانے اوروہاں تین روزقیام کرنے جبکہ بلوچستان میں پاکستانیت کے سحرانگیز نظارے دیکھنے کااتفاق ہوا۔ورلڈ کالمسٹ کلب کے مرکزی صدراورمنفرداسلوب کے کالم نگار مظہر برلاس،مرکزی آرگنائزروسینئر کالم نگار عرفان اطہرقاضی، سینئر تجزیہ کار چوہدری غلام حسین اورسینئر کالم نگارسلمان عابد بھی وہاں مدعو تھے۔ان دنوں بلوچستان کی باگ ڈور منجھے ہوئے سیاستدان نواب ثناء اللہ خان زہری کے ہاتھوں میں تھی وہ 24دسمبر 2015ء سے 9دسمبر2017ء تک وزیراعلیٰ بلوچستان رہے جبکہ سردار سیدال خان ناصر بھی ان دنوں حکومت بلوچستان میں ایک اہم منصب پرفائز اوربہت موثر انداز میں اپنا متحرک کرداراداکررہے تھے۔اس وقت کمانڈر سدرن کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عامرریاض (ر)نے جہاں انتہائی خلوص کے ساتھ ورلڈ کالمسٹ کلب سے وابستہ کالم نگاروں اورتجزیہ کاروں کے اعزازمیں پرتکلف ظہرانہ کااہتمام کیا تھا وہاں ہمارے میزبان ومہربان کی حیثیت سے ان کی گفتگو بھی علمیت سے بھرپور تھی۔بعدازاں لیفٹیننٹ جنرل (ر)عامرریاض کورکمانڈر لاہور بھی رہے،آج بھی ان کاشمارپاک فوج کے پروفیشنل،فرض شناس اورانتہائی زیرک کورکمانڈرزمیں ہوتا ہے،کاش ان سے مزید بہتر پوزیشن پرکام لیاگیا ہوتا توآج پاکستان کانقشہ یقینا مختلف ہوتا۔اُن دنوں کوئٹہ میں ڈائریکٹر آئی ایس پی آر کے منصب پر انتہائی مستند، مستعد اورپروفیشنل بریگیڈئیر محمدندیم انورتعینات تھے، جوبعدازاں نیک نامی سمیٹ کراِس اہم عہدہ سے ریٹائرڈ ہوئے اورآج بھی ان کادل پاکستان اورافواج پاکستان کیلئے دھڑکتا ہے۔اُن دنوں بھی سردارسیدال خان ناصر نے بلوچستان میں ہونیوالی یوم آزادی کی سرکاری تقریبات کو بھرپورعوامی رنگ دینے میں اپنا نظریاتی کرداراداکیا تھا۔امسال بھی بلوچستان میں مادروطن کا78واں جشن آزادی بھرپورجوش وجذبہ اورتجدید عہد کے ساتھ منایا اوروہاں مقامی نوجوانوں کوسردارسیدال خان ناصر کی طرف سے اتحاد ویکجہتی کا پیغام پہنچایاگیا۔
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سردارسیدال خان ناصراس اہم ترین آئینی منصب کیلئے اپنے قائد محمدنوازشریف کاحسن انتخاب ہیں، وہ ماضی کی طرح اس بار بھی اپنے قائد کے اعتماد پرپورااتریں گے۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے بلوچستان سے باوفا،باصفااور باصلاحیت سردارسیدال خان ناصر کے سیاسی اوصاف دیکھتے ہوئے انہیں ” عہدہ” جبکہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے اپنے قائدین کوان کے فلسفہ سیاست پراستقامت کا پختہ”عہد”دیا ہے،دونوں فریق مردم شناس اورنبض شناس ہیں۔ ان کا سینیٹ میں ڈپٹی چیئرمین کے عہدہ کو اپنی پارٹی قیادت اورریاست پاکستان کی امانت سمجھنا اوراب تک اپنے منصب کے ساتھ بھرپورانصاف کرنا یقینا ان کی اعلیٰ تعلیم وتربیت اورانہیں اپنے خاندان سے ملی قابل قدرپشتون روایات کانتیجہ ہے۔وہ انتہائی لیاقت،صداقت، دیانت اورمتانت کے ساتھ اپنافرض منصبی جبکہ پاکستانیت کاحق اداکررہے ہیں،انہیں کسی سیاسی میدان یامنتخب ایوان کے اندر اپوزیشن کے مشتعل سینیٹرز کے ساتھ الجھنا پسند نہیں۔ جس وقت چیئرمین سینیٹ مخدوم یوسف رضاگیلانی ایوان میں نہیں ہوتے توڈپٹی چیئرمین سردارسیدال خان ناصر انتہائی مدبرانہ، پیشہ ورانہ، منصفانہ اورآبرومندانہ انداز سے حکمران جماعت اورپی ٹی آئی کے سینیٹرز کوہینڈل کرتے ہیں۔”اپوزیشن” ایک پشتون سردار کو دبانے اوران کے ہوتے ہوئے ایوان میں دھونس جمانے کی “پوزیشن “میں نہیں ہے۔ سینیٹ میں فرض کی بجاآوری کے دوران اپوزیشن ارکان کے تندوتیز جملے بسااوقات شدیدحملے کاکام کرجاتے ہیں،تاہم اس سیاسی اشتعال انگیزی اور جارحانہ جملے بازی کے باوجودسردار سیدال خان ناصر کا “تحمل “اور”تجمل” انہیں اس منصب کیلئے انتہائی معقول اورقابل قبول بناتاہے۔ بحیثیت ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سردارسیدال خان ناصر کا سلجھاہوا سنجیدہ انداز دوسروں کوان کاگرویدہ بنارہا ہے۔وہ ملک میں شدید سیاسی گرماگرمی اورگہماگہمی کے باوجود ایوان میں زیر بحث آنیوالے ہر سیاسی اورآئینی” معاملے” کا “مکالمے “سے پائیدارحل تلاش کرنے کے حامی ہیں۔ اس وقت ہماری ریاست اورسیاست کو”ٹکراؤ”نہیں “ٹھہراؤ”کی ضرورت ہے۔