مستند مورخ کی علمی و قلمی “صفات” اور تاریخ کے ” صفحات” سے سچائی تک رسائی انسان کیلئے آسان ہوتی چلی جاتی ہے۔ اگر باری باری مسلمان ملکوں کے ساتھ پیش آنے والے ماضی کے متعدد دلخراش واقعات بلکہ اندوہناک سانحات سے شہادت لی جائے تو ہمیں جواب ملے گا، ” فتنہ پرور امریکہ کا سحر ہر اسلامی ریاست کیلئے زہر بلکہ زہر قاتل ہے”۔ پٹرول سمیت معدنیات کیلئے کئی ملین مسلمانوں کا خون بہایا گیا، امریکہ کے”بلنڈر” نے عراق اور لیبیا سمیت متعدد اسلامی ملکوں کو “کھنڈر” بنا دیا۔ یاد رکھیں اسلامی ملک اس سحر کی بیڑیوں کو توڑے بغیر بحیثیت قوم اپنے اپنے پیروں پر چلنا شروع کر سکتے ہیں اور نہ کوئی اِسلامی ریاست اِسلام کی چھتری کے ساتھ آگے بڑھ سکتی ہے۔ جس دن مسلمانوں نے اللہ ربّ العزت کی رسی مضبوطی سے تھام لی اس کے بعد دنیا کی کوئی طاقت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ مسلمان حکمران امریکہ کی بجائے اپنے قادر، کار ساز اور قوی اللہ ربّ العزت کی طرف دیکھیں، صرف وہاں سے ان کی ضروریات کے ساتھ ساتھ خواہشات بھی پوری ہو سکتی ہیں۔ آج تک جس نے بھی امریکہ یا آئی ایم ایف پر انحصار کیا وہ بری طرح خوار ہوا، مقروض ریاست اور مفتوح ریاست میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ امریکہ کے ساتھ مناسب “فاصلہ ” پاکستان کے حق میں درست” فیصلہ” ہوگا۔ جس طرح دانا دشمن کو نادا ن دوست سے بہتر کہا جاتا ہے اس طرح امریکہ کی دشمنی کو اس کی نام نہاد دوستی سے بہتر کہنا بیجا نہیں ہوگا۔ برادر اسلامی ریاست ایران نے بھی اپنے وقار اور اپنی خود مختار حیثیت پر سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے کافی حد تک اپنی معاشرت اور معیشت کو اس کے زہر اور قہر سے بچا لیا ہے کیونکہ دشمن سے ممکنہ خطرات آپ کی دفاعی مضبوطی، خودمختاری اور خود انحصاری میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ جس طرح دشمن ملک بھارت کے تعصبات اور جارحانہ عزائم کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے اپنی ترجیحات کی بر وقت اور درست تبدیلی کے نتیجہ میں اپنے دفاع کیلئے ایٹم بم بنایا سو ماننا پڑے گا انتہا پسند ہمسایہ ملک کی دشمنی ہماری ریاست کو راس آ گئی۔ امریکہ اور اسرائیل کی دشمنی نے بھی ایران کو پابندیوں کی بیڑیوں کے باوجود ایک دفاعی طاقت بنا دیا، وہ عنقریب ایٹمی طاقت بھی بنے گا۔ پاکستان بھی اپنے برادر اسلامی ملک ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کا بھرپور حامی ہے۔ پاکستان اور ایران نے باہمی اعتماد اور اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کا ہاتھ جبکہ ان کے فطری دشمنوں نے اپنا اپنا دل تھام لیا ہے۔ دونوں برادر اسلامی ملکوں کے درمیان دوستی انہیں کئی ملکوں کی دشمنی اور جارحیت سے بچانے میں بہت مدد دے گی۔ ایران پر عائد متعدد پابندیاں ہرگز منصفانہ نہیں لیکن اس کے باوجود اسرائیل کیخلاف اس کی حالیہ حمیت سے بھرپور مزاحمت امریکہ سمیت مقتدر قوتوں کو ہلکان اور پریشان کرنے کیلئے کافی ہے۔
امریکہ کو اپنے مفادات کیلئے دوسروں کو “استعمال “اور مطلب براری کے بعد ان کا بدترین” استحصال” کرنے کے سوا کچھ نہیں آتا۔ امریکہ نے پاکستان کو افغانستان میں روس کیخلاف استعمال کیا جبکہ روس کی پسپائی کے بعد سے ہماری ریاست کا استحصال کر رہا ہے۔ بار بار آزمائے ہوئے کوپھر آزمانا ہرگز دانائی نہیں۔ بروں کی صحبت سے آپ کی روحانی صحت پر منفی اثر پڑتا ہے، خواہ وہ کوئی برا ملک ہو یا پھر برا انسان ہو۔ پاکستان کے حق میں امریکہ کی اعلانیہ دشمنی اس کی منافقانہ دوستی سے ہزار درجے بہتر ہے۔ نام نہاد سپرپاور امریکہ نے آج تک فلسطین اور کشمیر کے تنازعات سمیت کسی عالمی تنازعہ کا پائیدار حل تلاش کرنے کیلئے اپنا تعمیری یا منصفانہ رول پلے نہیں کیا بلکہ الٹا منافقانہ کردار ادا کرتے ہوئے رکاوٹوں کی فصیلیں تعمیر کی ہیں۔ امریکہ کی طرف سے کئی بار اقوام متحدہ کے اندر معتوب و مغضوب فلسطینیوں کے حق میں قرارداد بھی ویٹو کی گئی، اس فتنہ پرور ملک سے دوستی اور اصول پرستی کی امید رکھنا اپنے ملک پر خودکش حملے کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان سمیت کئی اسلامی ملکوں کی معاشرتی اور معاشی ” ابتری” کے بغیر امریکہ اپنی “برتری” برقرار نہیں رکھ سکتا، جس طرح تجہیز و تدفین کا سامان فروخت کرنیوالے دکاندار انسانوں کی اموات پر رنجیدہ نہیں ہوتے اس طرح اسلحہ فروش امریکہ بھی دو ملکوں کے درمیان تصادم کی آگ پر اپنی روٹیاں پکاتا ہے۔ امریکہ سے تو افریقہ بہتر ہے کیونکہ اس کے ہاتھ بیگناہوں کے خون سے تر نہیں، افغانستان اور عراق سمیت متعدد اسلامی ملکوں میں بیگناہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کے باوجود امریکہ کو مہذب یا متمدن کہنا ہرگز جائز نہیں۔ کون ہے جو امریکہ کی اصلیت جبکہ انسانیت کیلئے پائیدار امن کی اہمیت نہیں جانتا، آپ جب بھی روس اور یوکرین کی طرح دنیا میں دو یا دو سے زائد ملکوں کے درمیان کسی بڑے تصادم کے محرکات پر غور کریں گے تو آپ کو اس کے ماسٹر مائنڈ کی مسند پر امریکہ براجمان ملے گا۔ جس دن دنیا سے امریکہ نامی خود ساختہ تھانیدار کا ناجائز اثر و رسوخ ختم ہو گیا اس روز ہماری زمین پائیدار امن کا دامن تھام اور انسانیت سکھ کا سانس لے گی۔
پاکستان میں وسائل کا فقدان نہیں لیکن قیادت میں فہم و فراست، مشاورت، خودداری اور خود اعتمادی کا بحران ہے۔ قدرت نے بیش قیمت معدنیات کی صورت میں پاکستان پر عنایات اور انعامات جبکہ ہماری نام نہاد قیادت نے نا قدری کی انتہا کر دی۔ اگر ہمارے اپنے سائنسدان اور ماہرین پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا سکتے ہیں تو یقینا مقامی انجینئرز کو براہ راست اپنی معدنیات تلاش اور انہیں ریاست کیلئے منفعت بخش بنانے میں بھی مہارت حاصل ہوگی، ہمارے لوگ بڑے دانشمند اور ہنر مند ہیں لہٰذاء ان کی صلاحیتوں کو آزمانے کی ضرورت ہے۔ ہماری مقروض ریاست اپنے قومی وسائل دوسروں کی جھولی میں نہیں ڈال سکتی۔ یاد رکھیں جو ریاست کسی خود دار ملک کی طرح اپنے فیصلے کرنے میں آزاد اور خود مختار نہیں تو معاشی استحکام کے باوجود اس کا دوام یقینی نہیں۔ ماضی شاہد ہے اِسلامی ملکوں کو کنٹرول کرنے، وہاں مرضی کی کٹھ پتلیاں بٹھانے اور پٹرول سمیت معدنیات ہتھیانے کیلئے کئی طرح کے جال بچھائے جاتے رہے ہیں، کئی مسلم حکمرانوں کو منظر سے ہٹایا اور موت کی نیند سلایا گیا ہے۔ پاکستان کی معدنیات پر پاکستانیوں کے سوا کسی کا حق نہیں ہو سکتا، ہماری ریاست اور معیشت اس امانت میں خیانت کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
اسلام آباد میں ہونیوالی حالیہ ریجنل چیفس آف ڈیفنس سٹاف کانفرنس جس کا میزبان پاکستان تھا اس میں ہمارے برادر اسلامی ملکوں ایران، افغانستان اور بنگلہ دیش سمیت ہمارے دیرینہ مخلص دوست چائنہ کی عدم شرکت ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ریجنل چیفس آف ڈیفنس سٹاف کانفرنس میں ان ریجنل ملکوں کے فوجی سربراہان کی موجودگی یقینا آسودگی کاسبب بنتی اور اس اہم ترین کانفرنس کو اس سے بھی زیادہ با مقصد مانا جاتا۔ سات سمندر پار سے امریکہ کا اس ریجنل کانفرنس میں کیا کام تھا، اس کی شرکت سے شرارت کی بو آنا فطری ہے۔ اس کانفرنس میں جہاں قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان کو دعوت دی گئی تھی وہاں روس کو بھی مدعو کر لیا جاتا۔ پاکستان کے ہاتھوں بھارت کی حالیہ رسوائی اور پسپائی کے بعد اس کی ایشیاء سمیت عالمی سطح پر مزید تنہا ئی کیلئے ہماری ریاست ریجنل ملکوں کے ساتھ آبرومندانہ انداز سے برادرانہ اور دوستانہ تعلقات کو مزید فروغ دے۔ ریجنل چیفس آف ڈیفنس سٹاف کانفرنس میں امریکہ سمیت قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان کے چیفس آف ڈیفنس سٹاف شریک تھے لیکن ایوان صدر اسلام آباد میں صدر مملکت آصف علی زرداری کی طرف سے پاکستان کا نشان امتیاز (ملٹری) صرف امریکہ کے جنرل مائیکل کوریلہ کو کیوں دیا گیا۔ مبینہ طور پر امریکہ کا جنرل مائیکل کوریلہ نہ صرف اسرائیل نواز بلکہ نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی میں بھی ملوث رہا ہے۔ دوسری طرف فلسطینیوں کی نسل کشی کیلئے اسرائیل کو ڈونلڈ ٹرمپ کا آشیرباد حاصل ہے لہٰذاء ریاست پاکستان کی طرف سے اس کا نام نوبیل انعام کیلئے تجویز کرنا بھی پاکستانیوں کو پسند نہیں آیا۔ میں پھر کہتا ہوں امریکہ کی پاکستان کے ساتھ نا پائیدار دوستی اس کی دشمنی سے زیادہ خطرناک ہے، امریکہ کی منافقانہ دوستی اور دشمنی دونوں ہمارے مفاد میں نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ متعدل اور مستقل مزاج نہیں بلکہ منتقم مزاج ہے، موصوف پر ہر گز اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ وعدہ وفا کرنے کے معاملے میں ڈونلڈ ٹرمپ سے زیادہ کوئی بے وفا نہیں۔ ہماری ریاست کسی نام نہاد “ڈھیل” کے عوض امریکہ کے ساتھ “ڈیل” کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کیلئے اپنے ریجنل دوست ملکوں کا اعتماد برقرار رکھنا زیادہ اہم اور سرمایہ افتخار ہے۔